سانحہ پشاور شہید بچوں کے والدین کیلئے اب بھی ڈراﺅنا خواب
سانحہ اے پی ایس پشاور کو ایک سال مکمل ہونے پر شہید طلباءکے اہل خانہ نے کہا ہے کہ مسلح درندے اللہ اکبر کے نعرے لگا کر بچوں کو شہید کر رہے تھے‘ آج بھی ڈراﺅنے خواب سے نیند میں ڈر جاتے ہیں۔ 3 ماہ تک ہوش و حواس میں نہیں تھے اب بھی شدید دباﺅ میں ہیں‘ معصوم طلباءکی شہادت کا باعث بننے والی سوچ کو پھانسی دینے کی ضرورت ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق شہید سکول ٹیچر کے شوہر عمر بٹ نے کہا ان کی بیوی طبیعت کی خرابی کے باوجود سکول گئی کہ بچوں کا حرج ہو گا۔ بینش کی نعش فرش پر پڑی تھی‘ سویٹر اور ہاتھ سے پہچانا‘ بینش کی شہادت کے وقت سب سے چھوٹی بیٹی 4 ماہ کی تھی تینوں کو ان کی ماں کی قبر پر لے گیا۔ ایک بچہ کہہ رہا تھا بابا پانی کی بوتل لے آﺅ پیاس لگی ہے خون بہت بہہ رہا ہے۔ والدہ ناصرہ زیب کہتی ہیں اکیلے سو رہا ہے۔ حسن اورنگزیب کے والد کہتے ہیں کہ حسن کو پشت پر گولی لگی تھی اور وہ بھاگتے ہوئے سٹاف روم میں گرا۔ اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق 134 بچوں کے والدین اور رشتہ دار اس بات کو سراہتے ہیں کہ اس حملے کے بعد سکیورٹی اداروں نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر اقدامات کئے ہیں، گرفتاریاں، پھانسیاں اور قبائلی علاقوں میں آپریشن جاری ہے تاہم والدین اس کے ساتھ اپنے بچوں کے قتل کے بدلے کے حوالے سے تحفظات بھی رکھتے ہیں اور سوال اٹھا رہے ہیں کہ حفاظتی اقدامات کے باوجود بچوں کو محفوظ کیوں نہ کیا جا سکا۔ 15 سالہ رفیق کے والد عابد رضا بنگش نے کہا کم از کم کسی سطح پر کوئی تو اس واقعہ کا ذمہ دار تھا۔ انہوں نے سینئر جج کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ کمشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا ہم ذمہ داروں کو پھانسی چڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے اگست میں فوجی ٹرائل کے دوران پشاور حملے کے 6 ذمہ داروں کو پھانسی اور 7 کو عمرقید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 2 دسمبر کو 4 مجرموں کو پھانسی دیدی گئی ہے۔ بنگش نے کہا ہم چاہتے تھے کہ ان سفاک مجرموں کو کھلے عام پھانسی دی جائے تاکہ انہیں دیکھ کر لوگوں کو عبرت حاصل ہوتی۔ دسویں جماعت کے شہید ہونیوالے طالب علم اسفند یار کے والد اجون خان نے کہا ان پھانسیوں کے باوجود واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا جاتا رہے گا۔ ایک والد طفیل خٹک نے اس حوالے سے سول اور ملٹری کوششوں کو سراہا۔ خیبر پی کے کے وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے کہا وہ والدین کے احساسات کو سمجھتے ہیں تاہم انہوں نے کہا حملے کے حقائق واضح ہیں اور جوڈیشل انکوائری کی ضرورت نہیں۔
سانحہ پشاور/ انکوائری مطالبہ