گورنر راج چاہتے ہیں تو لگا کر دکھائیں : نثار کھوڑو‘ اب جنگ دور تک جائیگی : خورشید شاہ
کراچی (وقائع نگار+نوائے وقت رپورٹ + آئی این پی) کراچی میں رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع کا معاملہ ایک بار پھر لٹک گیا، سندھ اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں اپوزیشن کے شدید احتجاج اور نعرے بازی کے باوجود پیپلز پارٹی قرارداد لائی نہ آج آئے گی۔ فنکشنل لیگ، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے ارکان نے سپیکر کے ڈائس کا گھیراﺅ کرکے کرپشن کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے اور دہشت گردی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کے نعرے لگائے، ایم کیو ایم کے ارکان نے احتجاج میں حصہ نہیں لیا خاموش بیٹھے رہے۔ سپیکر سندھ اسمبلی نے ارکان کو منانے کی ناممکن کوشش کے بعد اجلاس آج صبح 10بجے تک کےلئے ملتوی کر دیا۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا، جس میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بھی شرکت کی۔ اسمبلی کی کارروائی کے دوران کم اہم باتوں کو ایجنڈا میں اولیت دی گئی ان پر بحث بھی کرائی گئی۔ پیپلز پارٹی نے رینجرز اختیارات کی مدت میں توسیع کی قرارداد سندھ اسمبلی میں پیش نہیں کی۔ قرارداد اسمبلی کے ایجنڈا میں شامل نہیں کی گئی تھی جس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ فنکشنل لیگ، جے یو آئی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان سپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہو گئے اور شدید نعرے بازی شروع کردی۔ اپوزیشن ارکان نے سندھ اسمبلی کی کارروائی نہ چلنے دی، اپوزیشن کے شور پر سپیکر آغا سراج درانی نے مائیک بند کرنے کی ہدایت کی۔ اپوزیشن نے نعرے لگائے دہشت گردی، کرپشن کا جو یار ہے غدار ہے، غدار ہے اس کے جواب مےں حکومتی ارکان نے شےم شےم کے نعرے لگائے۔ اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ رینجرز کے اختیارات سے متعلق قرارداد پیش کی جائے جس پر سپیکر نے کہا کہ قرارداد کا معاملہ آج ایجنڈے میں شامل نہیں۔ اجلاس میں موجود وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ رہی۔ اجلاس کا وقت دوپہر 2 بجے ختم ہونے پر اپوزیشن ارکان ایجنڈا کی کاپیاں پھاڑ کر اسمبلی سے باہر چلے گئے۔ ”پرائیویٹ ممبر ڈے“ ہے جس میں ایسی قرارداد پیش کئے جانے کا امکان نہیں اس سے قبل پیپلز پارٹی کی طرف سے کہا جارہا تھا کہ پیر کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں رینجرز کے اختیارات کا معاملہ حل کرلیا جائے گا اس ضمن میں سندھ کے مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے پریس کانفرنس بھی کی تھی تاہم پیپلز پارٹی کی طرف سے مسلسل آٹھویں روز رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا معاملہ لٹکا دیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے معاملے کو التوا میں ڈالتے ہوئے اسے اجلاس کی کارروائی کے ایجنڈا میں گیارہویں نمبر پر رکھا ہوا تھا۔ بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ نے کہا کہ رینجرز اختیارات کے معاملے کو کیوں بڑھایا جارہا ہے اختیارات تو میرے پاس بھی نہیں ہیں، رینجرز کے بارے میں کوئی تضاد نہیں، رینجرز ہمارے ساتھ ہے اور رہے گی، اپوزیشن کے رویہ پر افسوس ہوا، اقلیتی اپوزیشن اکثریت کو ڈکٹیٹ کرے تو یہ جمہوری آداب کے خلاف اور افسوس کی بات ہے۔ سپیکر کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں نے غلط رویہ اختیار کیا، ایوان کا تقدس پامال کیا گیا، حکومتی ارکان نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ سندھ اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس کے بعد وزیراعلی قائم علی شاہ ایوان سے باہر آئے تو صحافیوں نے رینجرز اختیارات میں توسیع سے متعلق سوالات کی بوچھاڑ کردی جس پر وزیراعلی سندھ برہم ہوگئے اور کہا کہ آپ رینجرز کے معاملے کو کیوں بڑھا رہے ہیں اختیارات کچھ نہیں ہوتے وہ تو میرے پاس بھی نہیں، رینجرز ہمارے ساتھ ہے اور رہے گی رینجرز کے ساتھ اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرلیا جائے گا۔ ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں اجلاس جاری رکھنا ممکن نہ تھا جس پر سپیکر نے اجلاس ملتوی کیا۔ اپوزیشن کے روئیے پرافسوس ہوا ہے۔ سپیکر کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں نے غلط رویہ اختیار کیا۔ ایوان کا تقدس پامال کیا گیا۔ رینجرز کے بارے میں کوئی تضاد نہیں، رینجرز ہمارے ساتھ ہے اور رہے گی۔ دریں اثناء سندھ کے سینئر وزیر نثار کھوڑو نے وفاقی وزیر داخلہ کے حوالے سے کہا کہ آپ اگر سندھ میں گورنر راج لگانا ہے تو لگا کر دکھائیں۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نثار کھوڑو نے کہا کہ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ رینجرز کا معاملہ اسمبلی میں لے کر جائیں گے جب کہ انہوں نے سندھ میں گورنر راج لگانے کی بھی دھمکی دی ہے۔ جمہوری اداروں کی اہمیت کو گھٹا کر گورنر راج نہیں لگایا جاسکتا۔ ہم سب جمہوری اداروں پر اعتماد کیوں نہیں کرسکتے، یہی جمہوری ادارے تھے جنہوں نے فیصلہ کرکے افواج پاکستان کو ضرب عضب کرنے کی اجازت دی جس کی مدت دو سال کے لئے دی گئی، اگر پولیس کی مدد سے سندھ حکومت امن و امان قائم کردیتی ہے تو کسی کو اعتراض کیوں ہے۔ سندھ حکومت نے رینجرز کو واپس بھیجنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، آرٹیکل 147 کے تحت رینجرز کو کراچی میں بلایا گیا تھا اور اب اس کی منظوری اسمبلی سے لینا ہے تاہم حکومت کا رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع کے معاملے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کی منظوری اسمبلی سے چاہتے ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے رینجرز اختیارات کی قرارداد سے پہلے اسمبلی میں شور شرابا کیا گیا جب کہ اپوزیشن نے اس معاملے پراسمبلی کی اہمیت اور حیثیت کم کرنے کی کوشش کی آج پرائیویٹ ممبرز ڈے ہے اس میں رینجرز معاملے پر قرارداد نہیں لائی جاسکتی اس لئے اپوزیشن نے یہ موقع گنوا دیا۔ انہوں نے کہا کہ رینجرز کو 3 ماہ تحویل میں رکھنے کا اختیار نہیں گرفتاریوں سے قبل اسے حکومت سے اجازت لینا ہو گی۔ ایک صوبے میں جہاں امن و امان بہتر ہے کیا وہاں گورنر راج لگاﺅ گے؟ انہوں نے کہا کہ آپ جمہوری اداروں کی اہمیت کو گھٹا کر گورنر راج لانا چاہتے ہیں ایک صوبے میں جہاں امن و امان بہتر ہو چکا ہے آپ پھر 1999ءکا راستہ دکھانا چاہتے ہیں رینجرز کو ایک ضلع کیلئے ایک ڈویژن کیلئے یا صوبے کیلئے بلایا جائے یہ حکومت کی صوابدید ہے جہاں حالات مخدوش ہیں رینجرز کو وہیں بلایا جائے گا۔ سندھ حکومت نے رینجرز کو واپس بھیجنے کا فیصلہ نہیں کیا۔
سندھ اسمبلی
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے بیان کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاروں صوبے مجھے اتنے ہی عزیز ہیں جتنی اپنی ذات۔ چودھری نثار کی پریس کانفرنس میں حکومت یا وزیراعظم کا کتنا حصہ ہے معلوم نہیں۔ نواز شریف نے بہت کچھ دیکھا اور پایا ہے۔ نواز شریف ایک اکائی پر حملہ آور نہیں ہو سکتے۔ کلثوم نواز مشکل میں تھیں۔ کچھ لوگ گھروں میں بیٹھے تھے۔ کئی لوگوں نے تو جیل بھی نہیں دیکھی۔ پیپلز پارٹی رینجرز کے اختیارات میں رکاوٹ نہیں۔ ہم نے تو اپنے اختیارات بھی رینجرز کو دے دئیے تھے۔ ہم نے ہر معاملے میں حکومت کا ساتھ دیا ہے۔ ملک میں آج بھی وہ لوگ موجود ہیں جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر ایک وزیر کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ماضی کی سیاست کو دہرانا نہیں چاہتے۔ جب بھی ہم نے ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالا، فائدہ کسی اور نے اٹھایا۔ ہمارے لئے سب سے اہم آئین ہے۔ وزیراعظم کو کم از کم اپوزیشن لیڈر کے خطاب کے وقت ایوان میں ہونا چاہئے۔ ویڈیو لانا ہے تو لے آئیں۔ فیصلہ عدلیہ یا فوج نے کرنا ہے۔ رانا مشہود کی ویڈیو بھی سامنے لائی جائے۔ اسحاق ڈار نے بھی منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا ثبوت دیا۔ ہم آئین کے تحت اداروں کے مینڈیٹ کی بات کرتے ہیں۔ اتنا پتہ ہے وزیراعظم کبھی ریاست کی ایک اکائی کو یوں نہیں جھنجھوڑ سکتے۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھی جیل کاٹی اور جلا وطنی بھی گزاری ہے۔ باور کرایا جا رہا ہے کہ صرف ڈاکٹر عاصم کا معاملہ ہے۔ باتیں کرنے والے تیس مار خان کو 15 روز کسی ادارے کو دیں تو ہاتھی سے بکری بن جائے گا۔ نہیں معلوم وفاقی وزیر کس کے کہنے پر ایک صوبے کو دھمکی دے رہے ہیں۔ وفاق گورنر راج لگائے، ایمرجنسی لگائے یا اسمبلی معطل کرے اب جنگ دور تک جائے گی۔ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ پنجاب کو رینجرز کے حوالے کر دیا جائے۔ جب ہم ایک دوسرے کو چور چور کہتے ہیں تو ”وہ“ آ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ عزیز ہم وطنو! تم سب چور ہو۔ شاید اب کی بار پاکستان ایسا کوئی صدمہ برداشت نہ کر سکے۔ زہر کے گھونٹ اس لئے پی رہے ہیں کہ اب کی بار وہ کچھ نہ ہو جو پہلے ہوتا آیا ہے۔ ہماری جنگ کسی شخص کے لیے نہیں لیاری آج ہمارے ہاتھ میں نہیں جس طرح پہلے تھا۔ ہم نے جمہوریت کے لیے جیلیں کاٹیں، کوڑے کھائے اگر ایک دوسرے کی پگڑی میں ہاتھ ڈالنا ہے تو سب کے دو دو ہاتھ ہیںکسی کے 5 ہاتھ نہیں۔ وزیراعظم کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ نیب کو صرف سندھ نظر آتا ہے، احتساب کرو مگر سب کا۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ وطن واپس آ کر مسئلہ حل کریں گے۔ جمہوریت کو مزید سازشوں کا شکار نہیں کرنا چاہتے۔ سندھ ایک ستون ہے جو ہل گیا تو میرے وطن کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس خطاب سے قبل خورشید شاہ نے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا جس میں کراچی میں رینجرز کو اختیارات کے معاملے پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ سندھ سے رینجرز کے اختیارات پر تفصیلی بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ مارشلائی دور میں بھی صورتحال اچھی نہیں رہی، گورنر راج لگائیں مگر دھمکیاں تو نہ دیں۔ خورشید شاہ نے کہا کہ سندھ میں رینجر ز کے اختیارات میں توسیع کا فیصلہ صوبائی حکومت اور اسمبلی نے کرنا ہے، وزیر اعلیٰ سندھ نے رینجرز کے اختیارات میں توسیع سے انکار نہیں کیا۔ وزیر کی پریس کانفرنس میں غیر مناسب رویہ اختیار کیا گیا ہم جمہو ریت کی خاطر قر بانیاں دے رہے ہیں لیکن اگر ہماری پگڑیوں میں ہاتھ ڈالا جائے گاتو پھر ہمارے بھی دو ہاتھ ہیں کسی کے پانچ ہاتھ نہیں ، سندھ کے خلاف آپشن استعمال کرنے کی بات کی جارہی ہے ، میں کہتا ہوں دیر نہ کی جائے،کل کی بجائے آج ہی گورنر راج اور ایمر جنسی لگاد یں ، یا وزیر اعلیٰ کو معطل کردیں مگر پھر بات سندھ تک نہیں رہے گی با ت دور تک جائے گی، و فاقی وزیر داخلہ رانا مشہو د اور اسحاق ڈار کی ویڈیوز بھی سامنے لائی جائیں اسحاق ڈار نے بھی ویڈیو میں منی لانڈرنگ تسلیم کی تھی۔ ایک صوبے کے خلاف آپریشن استعمال کرنے کی بات کی جارہی ہے میں کہتاہوں کہ کل کی بجائے، آج استعمال کر سکیں، رینجرز کو اختیارات ملیںگے ، قائم علی شاہ نے بھی رینجرز کی قربانیوں کو تسلیم کیا ہے کہ ان کے آنے سے امن قائم ہوا ہے ، ہماری پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے مگر ہم نے وہاں قربانی دی نتیجہ میں لیاری میں ہمارا سیاسی اثر و رسوخ کم ہو ا ۔ مگرہم نے رینجرز پر اعتراض نہیں کیا ، ہم نے کبھی پنجا ب میں رینجرز طلب کرنے کا مطالبہ نہیں کیا ، جب کہ ہم کہتے رہے کہ پنجاب میں دہشت گردوں کی نرسریاں ہیں ، ہماری جنگ کہی ایک شخص کو بچانے کے لیے نہیں ، پاکستان قانونی جنگ کے لیے عدالتیں مو جو دہیں ، نیب کو کیا صر ف پیپلز پارٹی نظر آتی ہے ، باقی سب فرشتے ہیں ، وفاق کے معاملے ہم پی اے سی اٹھاتے ہیں مگر نوٹس نہیں لیا جاتا ، اس تالاب میں سب کھلے ڈھلے ہیں جب نیب کی فہرست نے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سنے مگر حالات خراب نہیں کیے ، ہم نے ہمیشہ جمہو ریت کے لیے قربانیاں دیں ، پرویز مشرف کی آمریت کے خلا ف بھی کھڑے ہوئے اور نواز شریف سے اختلافات کے باوجود مشرف کیخلاف جدوجہد کی فوج کا جو کام ہے وہ بہتر کر سکتی ہے، فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے ، عدالتوں کا کام انصاف کرنا ہے، اگر چیف جسٹس کو ایوان میں بٹھا دیا جائے تو ہماری ایک بات بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ نوازشریف کی واپسی کے منتظر ہیں کیونکہ انہوں نے وزیر اعلیٰ سے بات کی اب ملک کی سازش کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
خورشید شاہ