قومی اسمبلی‘ خورشید شاہ نے وزیر داخلہ پر نکتہ چینی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
اسلام آباد (عترت جعفری) صدر مملکت کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس پر بحث کے دوران اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا تمام تر خطاب کراچی میں رینجرز کے اختیارات کے معاملہ پر حال ہی میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے پس منظر میں ہوا۔ اپوزیشن لیڈر نے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا نام تو نہیں لیا مگر ان پر نکتہ چینی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہاں تک کہا کہ وزیر داخلہ کا مؤقف وزیراعظم کا نہیں ہے۔ اپوزیشن لیڈر دراصل یہ کہہ رہے تھے وزیر داخلہ اپنے طور پر سندھ حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ تاہم شیخ رشید احمدنے اپنے خطاب میں اس سے اختلاف کیا اور کہا کہ کوئی وزیر وزیراعظم کی منظوری کے بغیر اس طرح بیان نہیں دے سکتا۔ ارکان کی حاضری بھی مایوس کن رہی۔ حتیٰ کہ تحریک انصاف کے امجد خان نیازی نے کورم کی نشاندہی کر دی کورم پورا نہ تھا اور صدر نشین غلام مصطفیٰ شاہ نے اجلاس منگل کی صبح تک ملتوی کر دیا۔ قومی اسمبلی میں ارکان کی حاضری کیوں کم رہتی ہے۔ اور یہ حکومتی اور اپوزیشن بنچز پر یکساں طور پر رولز ہے۔ قائد حزب اختلاف نے خطاب کیا اور ایوان سے باہر چلے گئے۔ وزیر داخلہ نے وقفہ سوالات میں چند سوالوں کا جواب دیا اور ایوان سے روانہ ہو گئے۔ دونوں رہنماؤں کی ایوان سے روانگی کے بعد ارکان اٹھ اٹھ کر واپس جاتے رہے۔ گزشتہ روز کے اجلاس میں وقفہ سوالات میں اہم جوابات تھے۔ جن میں حکومت کی طرف سے تین سال میں 2.7 ٹریلین روپے‘ اندرونی ذرائع سے قرضے لینے اور اس پر 650 بلین روپے سود کی مد میں ادا کرنے کے بارے میں تھا۔ ایک دوسرا جواب 4 بین الاقوامی اداروں کے پاکستان کے ذمہ 24 ارب ڈالر سے زائد قرضوں کے بوجھ کے بارے میں تھا۔ ایک جواب گزشتہ 5 سال میں 78 ارب روپے سے زائد قرضے معاف کرنے کے بارے میں تھا۔ یہ حساس ایشو نہ اپوزیشن کی توجہ نہیں پا سکے۔ قرضے معاف کرنے کے متعلق سوال ڈاکٹر شیریں مزاری نے کیا تھا۔ اس کا جواب یہ ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ حکومت دور میں بھی 30 ارب روپے سے زائد قرضے معاف ہوئے ہیں۔ اگرچہ پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا افضل کا مؤقف تھا کہ سرکاری تحویل کے 17 اداروں نے کل معاف شدہ قرضوں کا محظ10فیصد قرضہ معاف کیا ہے۔ جب ان سے قرضے معاف کرانے والوں کے نام سامنے لانے کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے تکنیکی وجہ کی آڑ لی اور یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ نیا سوال کیا جائے۔