پاکستان کا دولخت ہونا قومی سانحہ‘ سقوط ڈھاکہ میں بھارت کا بنیادی کردار تھا: رفیق تارڑ
لاہور (خصوصی رپورٹر) تحریک پاکستان میں بنگالیوں نے اہم کردار ادا کیا اور مسلم لیگ کی بنیاد بھی 1906ء میں ڈھاکہ میں ہی رکھی گئی تھی۔ پاکستان کا دولخت ہونا ہماری قومی تاریخ کا ایک دلدوز سانحہ ہے۔ سقوط ڈھاکہ میں بھارت کا بنیادی کردار تھا۔ دشمن کے مقابلے میں ہمارا اتحاد ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے اور اسی طاقت کے ذریعے ہم سقوط ڈھاکہ اور آرمی پبلک سکول جیسے سانحات کی روک تھام کر سکتے ہیں۔ سانحۂ آرمی پبلک سکول، پشاور کے شہداء کی یاد آج ہمارے دوہرے غم کا حصہ بن گئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں یوم سقوط ڈھاکہ کے موقع پر فکری نشست ’’یوم سقوط ڈھاکہ۔محرکات و اثرات‘‘ میں کیا۔ نشست کا اہتمام نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد، پروفیسرعطاء الرحمن، بیگم مہناز رفیع، بریگیڈیئر (ر) لیاقت علی طور، کرنل (ر) عبدالرزاق بگتی، عبدالغفار عزیز، کرنل (ر) زیڈ آئی فرخ، چودھری نعیم حسین چٹھہ، بیگم خالدہ منیرالدین چغتائی، کرنل(ر) اکرام اللہ خان، ادیب جاودانی، بیگم صفیہ اسحاق، میجر(ر) صدیق ریحان، میاں ابراہیم طاہر، انجینئر محمد طفیل ملک، ڈاکٹر یعقوب ضیائ، محمد یٰسین وٹو، مولانا محمد بخش کرمی، بنگلہ دیش سے آئے ہوئے محمد عبداللہ سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کثیر تعداد میں موجود تھے۔ تلاوت کی سعادت حافظ محمد عمران نے حاصل کی جبکہ حافظ عبدالرحمن نے بارگاہ رسالت مآبؐ میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا۔ نظامت ڈاکٹر پروین خان نے کی۔ چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ محمد رفیق تارڑ نے نشست کے شرکاء کے نام خصوصی پیغام میں کہا کہ پاکستان کا دولخت ہونا ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا دلدوز سانحہ ہے جس نے دنیا کے ہرگوشے میں بسنے والے پاکستانیوں کو اشکبار کر دیا تھا۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ہم مشرقی پاکستان کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ قیام پاکستان کے وقت ہم نے اپنے لئے جس مقصد کا تعین کیا تھا‘ اس سے پیچھے ہٹ گئے تو ہمیں مسائل نے آن گھیرا۔ ہماری منزل ایک ایسے صالح معاشرہ کا قیام تھا جہاں کی سیاست‘ معیشت اور معاشرت کو دین اسلام کے سنہرے اصولوں پر استوار کر کے ثابت کیاجا سکے کہ یہ اصول آج بھی اُسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح نبی کریم حضرت محمدﷺ کی حیاتِ طیبہ اور خلفائے راشدین کے دور میں تھے۔ اس عظیم الشان مقصد سے روگردانی نے ہمیں 16 دسمبر 1971ء جیسا دن دکھایا۔ گزشتہ سال آج ہی کے دن دشمن نے ایک مرتبہ پھر ہمارے قلب پر وار کیا تھا۔ پشاور کے آرمی پبلک سکول کے 133طلبہ اور اُن کے اساتذہ کرام کو شہید کر دیا گیا۔ ان معصوم بچوں کے قتل عام نے پاکستان کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا اور پاکستانی حکومت و قوم کی پشتیبانی سے افواج پاکستان نے دہشت گردی کے عفریت کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز کر دیا۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ آج بہت سوگوار دن ہے۔ آج ہی کے دن 16دسمبر1971ء کو سقوط ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوا جبکہ 16دسمبر2014ء کو آرمی پبلک سکول، پشاور میں دہشتگردی کے واقعہ میں 130سے زائد بچے شہید ہو گئے۔ دنیا میں کئی ممالک کے درمیان بڑے جھگڑے ہوتے ہیں لیکن پھر دوبارہ تعلقات بھی قائم ہو جاتے ہیں۔ دو ممالک کے مابین اختلافات پیدا ہوتے ہیں لیکن کبھی بیرون ملک سے حملہ نہیں ہوتا۔ 1971ء میں بھارت نے مشرقی پاکستان میں فوج کشی کی جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بڑا سبب بنا۔ یہ ایک بہت بری مثال تھی۔ بھارت نے آج تک پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور مسلسل سازشوں میں مصروف ہے۔ ہمیں بنگلہ دیش کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اپنانی چاہئے۔ پروفیسر عطاء الرحمن نے کہا 16دسمبر1971ء کا المیہ رونما ہوا تو پاکستان سے محبت کرنیوالے شدید ذہنی اذیت کا شکارہو گئے تھے۔ آج سے ایک سال قبل آرمی پبلک سکول میں ننھے بچوں کو شہید کر دیا گیا۔ ان نونہالوںکی یاد آج ہمارے دوہرے غم کا حصہ بن گئی ہے۔ ہمیں قائداعظم اور علامہ محمد اقبال کے افکارونظریات پر عمل کرنا ہو گا۔ بیگم مہناز رفیع نے کہا کہ1971ء میں پاکستان توڑنے کی سازش کی گئی اور آج پھر ہمارا دشمن پاکستان کو توڑنے کی سازش کررہا ہے۔ سانحہ پشاور میں 132بچوں کی شہادت نے قوم کو دہشتگردوں کیخلاف یک زبان اور یکجان کر دیا۔ بریگیڈیئر (ر) لیاقت علی طور نے کہا کہ پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد بہت سی مشکلات آئیں اور ان میں سے ایک 1971ء کا سانحہ مشرقی پاکستان بھی ہے لیکن ان سب مشکلات سے نکل کر پاکستان آج ایک ایٹمی قوت ہے۔ کرنل (ر) عبدالرزاق بگٹی نے کہا جو قومیں اپنی تاریخ میں رونما ہونیوالے سانحات اور اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہیں وہ زندہ نہیں رہتی ہیں ۔ہمیں پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان کرنی چاہئے۔ کرنل(ر) زیڈ آئی فرخ نے کہا کہ میں30ستمبر1970ء کو مشرقی پاکستان میں گیا اور وہاں ایک پریزینٹیشن کیلئے مجھے چند فائلیںمطالعہ کرنے کیلئے دی گئیں اور جوں جوں میں نے ان فائلوں کا مطالعہ کیا تواس میں موجود مواد کودیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ بنگلہ دیش تو بن چکا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں حالات کے جبر کا بڑا ہاتھ تھاجبکہ بھارت نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ عبدالغفار عزیز نے کہا کہ آج بدقسمتی سے ہماری نئی نسل اپنی تاریخ کو بھولتی جا رہی ہے اور شاید انہیں ان واقعات کا علم ہی نہیں ہے۔ اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد کہا تھا کہ آج ہم نے دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ یہ دوقومی نظریہ کیا ہے، اس نظریے کے مطابق ہم الگ قوم ہیں اور اسی بنا پر ہم نے علیحدہ اسلامی ملک حاصل کیا۔نظریۂ پاکستان دراصل نظریۂ اسلام ہے اور اس نظریے کو کبھی شکست نہیں ہو سکتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر پروین خان نے کہا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان 1100میل کا فاصلہ تھا اور اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوئوں نے سازشوں کا بازار گرم کر دیا۔ بیگم صفیہ اسحاق نے سانحہ آرمی پبلک سکول ،پشاور کے حوالے سے دل سوز نظم بھی سنائی۔ آخر میں مولانا محمد بخش کرمی نے بنگلہ دیش میں متحدہ پاکستان کے حامی شہید رہنمائوں اور آرمی پبلک سکول ،پشاور میں شہید اساتذۂ کرام اور طلبا وطالبات کے بلندیٔ درجات کیلئے دعا کروائی۔