کلکتہ کے خونیں فسادات، سقوط ڈھاکہ، سانحہ پشاور، 16 تاریخ منحوس ہی رہی
لندن (نیٹ نیوز) مغربی دنیا میں 13 کے ہندسے کو صدیوں نحوست کی علامت سمجھا جاتا رہا مگر پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو 16 کا ہندسہ پچھلے 69 برسوں میں تین بار گلے پڑا اور گہری تبدیلیاں چھوڑ گیا۔ کیا 16 اگست 1946ء کی تاریخ کسی کو یاد ہے۔ اس روز قائداعظم محمد علی جناح کی اپیل پر ہندوستان میں ڈائریکٹ ایکشن ڈے منایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ کانگریس اور انگریزی سرکار کے مابین مبینہ گٹھ جوڑ کی فضا میں ڈائریکٹ ایکشن ڈے منا کر ثابت کیا جائے کہ مسلمان اور ان کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ بھی آزادیِ ہندوستان کے حساس معاملے میں تیسرا طاقتور مساوی فریق ہے۔ بی بی سی کے مطابق مگر 16 اگست 1946ء کو مسلم اکثریتی صوبہ بنگال کے دارالحکومت کلکتہ اور گرد و نواح میں خوفناک فساد پھوٹ پڑا۔ جس میں تین ہزار ہلاکتیں ہوئیں جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ ان فسادات نے اگرچہ کانگریس اور انگریز سرکار پر یہ حقیقت تو کھول دی کہ تقسیم کے بغیر ہندوستان میں آگ لگ جائے گی مگر کلکتہ فسادات سے جو خونی مثال قائم ہوئی وہ اس بربریت کی پہلی المناک کڑی ثابت ہوئی جس نے اگلے دو برس میں صوبہ سرحد سے بنگال اور سری نگر تا دکن دس لاکھ سے زائد افراد کو عقیدے کی صلیب پر لٹکا کر نیچے انگارے بچھا دئیے، جو آج تک یہاں سے وہاں تک بہانے بہانے سلگ رہے ہیں۔ 16 کے ہندسے نے پھر 25 برس بعد وار کیا جب 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان کا مشرقی حصہ ہم سے علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔ اس فلم کے تمام پرنٹ بھارتی سازش کے ڈبے میں بند ہوگئے، حتی کہ اکیڈمک تجزیہ بھی ہچکچاہٹ سے بھرپور ہے اور زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ لیکن جب 16 دسمبر 2014ء نے پاکستانی تاریخ و حافظے میں دخول کیا ہے اس کے بعد رہا سہا 16 دسمبر 1971 مکمل گہنا گیا۔ رپورٹ کے مطابق دو برس پہلے تک 16 دسمبر 1971 کو عمومی سطح پر پاکستانی تاریخ کے عظیم سانحے کے طور پر گنا جاتا تھا لیکن اب آرمی پبلک سکول والا 16 آنے والے کئی برس تک عظیم سانحے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اچھی بات بس یہ ہوئی ہے کہ 16 دسمبر 1971ء کے برعکس 16 دسمبر 2014 کو پاکستان نے سرکاری طور پر باضابطہ قومیا لیا۔ اس کے نتیجے میں وہ عسکری و سیاسی پیش قدمی شروع ہوئی جو اس سانحے سے بہت پہلے شروع ہو جانی چاہئے تھی۔ مگر دونوں جڑواں تاریخوں میں ایک اور قدرِ مشترک بھی ہے۔ 16 دسمبر 1971ء کے اسباب وذمہ داری کا تعین کرنے والے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف تادیبی کارروائی تو دور کی بات، اس رپورٹ کو آج تک باضابطہ اپنایا تک نہ جا سکا جبکہ 16 دسمبر 2014 کے آرمی پبلک سکول سانحہ کو بطور عظیم المیہ اپنانے کے باوجود اسباب و ذمہ داری کے تعین کے لیے حمود الرحمان کمیشن جیسی کوئی جوڈیشل انکوائری تک نہیں بٹھائی گئی۔ اگر فوج یا وفاقی و صوبائی حکومت نے اپنے اپنے طور پر اس حوالے سے چھان پھٹک کی ہے تو عام آدمی کے علم میں تاحال کچھ بھی نہیں۔ ساری قومی توجہ یادِ شہدا پر مرکوز کر دی گئی۔