بچے اور والدین گھبرائے نہیں، ایک برس میں ریکارڈ داخلے ہوئے: پرنسپل اے پی ایس
اسلام آباد (بی بی سی) گذشتہ سال طالبان حملے میں نشانہ بننے والے آرمی پبلک سکول پشاور کے جونئیر سیکشن کی پرنسپل سائرہ داؤد آفریدی نے کہا ہے کہ شدت پسندوں کے حملے کے بعد ان کا خیال تھا کہ شاید سکول میں طلبا کی تعداد میں عمومی طور پر کمی واقع ہوگی لیکن حیران کن طور پر اس ایک سال کے دوران داخلوں کی شرح میں کمی کی بجائے بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ اس سال آرمی پبلک سکول پشاور میں ریکارڈ داخلے ہوئے ہیں جو اس سے پہلے سکول کے تاریخ میں دیکھنے میں نہیں آئے۔ ’ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ اتنے سارے طلبا ایک ایسے تعلیمی ادارے میں داخلے کے لئے آئیں گے جہاں ایک بہت بڑا سانحہ رونما ہو چکا ہے لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ داخلہ لینے والوں میں بیشتر ان بچوں کے چھوٹے بہن بھائی یا رشتہ دار ہیں جو اس سانحے میں شہید ہوئے تھے۔ اس سال سکول انتظامیہ کو وقت سے پہلے داخلے بند کرنا پڑے کیونکہ نشستوں کی کمی اور منع کرنے کے باوجود بھی درخواستیں آتی رہیں ہیں۔ اے پی ایس کی ہر کلاس میں 30 سے زیادہ طلبا نہیں ہوتے لیکن یہ تعداد اب 37 سے 40 تک پہنچ گئی ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ سائرہ داؤد 16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کی چشم دید گواہ بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے کہ 16 دسمبر کا حملہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا جسے شاید کبھی نہیں بھلایا جا سکے لیکن سکول انتظامیہ نے ایک حکمت عملی کے تحت طلبا اور ان کے والدین کو اذیت ناک اور تکلیف دہ صورتِ حال سے نکالنے کے لئے دن رات ایک کیا اور اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ ’ہمیں یہ اندازہ بالکل نہیں تھا کہ ایک طرف اس واقعے سے اتنا بڑا نقصان ہوگا تو دوسری جانب اس سے طلبا اور ان کے والدین میں ایک نیا حوصلہ بڑھے گا اور وہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوط ہو جائیں گے۔ طلبا اور ان کے والدین بہت جلد سکتے کی کیفیت سے باہر نکل آئے اور اگلے حوصلے اتنے بلند ہوگئے ہی کہ انہوں نے اس سانحے کو اپنا ہتھیار بنا لیا ہے اور اب وہ کسی قسم کے خطرے سے ڈرنے والے نہیں۔