2015ء اعلیٰ عدالتوں میں اصلاحات اور اہم فیصلوں کا سال رہا
لاہور (رپورٹ۔ ایف ایچ شہزاد) اعلی عدالتوں میں 2015ء اصلاحات اور اہم عدالتی فیصلوں کا سال رہا۔ سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں حکومتی احکامات اور تقرریوں کے خلاف کیسز میں وزرائ، بیوروکریٹس، ایجنسیوں کے سربراہوں اور سیاسی شخصیات کو نوٹسز کا سلسلہ جاری رہا جبکہ مہنگائی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور لوڈشیڈنگ سمیت بنیادی حقوق کے حوالے سے دائر رٹ درخواستوں کی سماعت بھی ہوتی رہی۔ لاہور ہائی کورٹ نے بجلی کے بلوں پر عائد 100 ارب سرچارج کو غیرقانونی قرار دیا جس کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کر دی۔ لاہور ہائی کورٹ میں حج پالیسی، اندرون شہر تعمیرات، ڈونگی گرائونڈ کی بحالی کیلئے اہم درخواستیں دائر ہوئیں جو زیر التواء ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر 6 ہزار معذوروں کو ملازمت ملی اور مستقل گورنر کی تقرری کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ میں سینٹ کے الیکشن، پیمرا کے چئیرمین، میٹرو اورنج منصوبہ، خناق سے شہریوں کی اموات اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف اہم رٹ درخواستیں دائر کی گئیں جن میں متعدد پر فاضل عدالت نے عبوری حکم امتنا عی دے رکھا ہے۔ ججز کی تقرریوں کے مروجہ طریقہ کار پر بار ایسوسی ایشنز نے اعلی عدلیہ سے اس سال بھی اختلاف رائے رکھا۔ سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد18ہزار جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں 60 ہزار سے زائد ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں شہریوں کی طرف سے سب سے زیادہ رٹ درخواستیں محکمہ پولیس کے خلاف دائر ہوئیں جبکہ ایل ڈی اے دوسرے نمبر پر رہا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل6کے تحت مقدمے میں از سر نو تفتیش کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ میں عوامی درخواستوں کی تعداد 8 ہزار سے زائد رہی۔ زیادہ تر درخواستیں مختلف محکموں کو بھجوا دی گئیں۔ سپریم کورٹ میں جسٹس ناصر الملک اور جسٹس جواد ایس خواجہ بطور چیف جسٹس ریٹائرڈ ہوئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ مختصر ترین مدت کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان رہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی نے ملکی تاریخ پہلی بار سینٹ سے خطاب کیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں مسٹر جسٹس اعجاز لاحسن نے بطور چیف جسٹس حلف اٹھایا۔ جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس منظور احمد ملک اور مسٹر جسٹس سردار طارق مسعود کو سپریم کورٹ کے جج مقرر کیا گیا۔ مسٹر جسٹس منصور علی شاہ لاہور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج بن گئے۔ لاہور ہائی کورٹ میں آٹھ ججز کو کنفرم جبکہ چار کو ایک سال کیلئے توسیع دی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے بیرون ملک غیر قانونی اثاثہ جات کیس میں وزیر اعظم اور وزیر اعلی سمیت66سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا گیا۔ خاتون محتسب کو توہین عدالت کی درخواست میں شوکاز نوٹس جاری کیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے بزرگ پنشنرز کو پنشن اور عدالتی اہلکاروں کو جوڈیشل الائونس کی مد میں ادائیگیوں کا حکم دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل جوڈیشل کمیشن نے سانحہ ماڈل ٹائون میں پنجاب حکومت کو ذمہ دار قرار دینے کی جو رپورٹ دی اسے پبلک کرنے کیلئے رٹ درخواستیں دائر کی گئیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے ماڈل ایان علی کی ڈالر سمگلنگ کیس میں ضمانت منظور کی۔ الیکشن ٹریبونل کے عبوری فیصلوں کے خلاف درخواستیں خارج کر دی گئیں۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مغلپورہ کی5سالہ بچی سے زیادتی پر لئے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ لاہور ہائی کورٹ نے سینکڑوں بھٹہ مزدوروں کی رہائی کے احکامات جاری کئے۔ عدالتی احکامات کے باوجود شہریوں سے مبینہ فراڈ کرنے والے فیوچر کنسرن کمپنی کے مالک عاصم ملک کو پولیس اور ایف آئی اے اس سال بھی گرفتار نہیں کر سکی۔ تاہم ہائی کورٹ کے حکم پر عاصم ملک کی جائیداد نیلام کر کے متاثرین کو ادائیگیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ہائی کورٹ نے بالغ اور عاقل لڑکیوں کی طرف سے کی جانے والی پسند کی شادیوں کو قانونی قرار دے کر انہیں اپنے خاوندوں کے ساتھ جانے کی اجازت دی۔ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے جوڈیشل اصلاحات کیلئے مزید اہم فیصلے کئے۔ پنجاب بار کونسل نے متعدد وکلاء کے خلاف مس کنڈکٹ کی شکایات پر ان کے لائسنس معطل کر کے نوٹس جاری کئے۔ سپریم کورٹ بار اور لاہور ہائی کورٹ بار کے انتخابات میں عاصمہ جہانگیر گروپ کے امیدواروں نے صدارت کی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ تاہم سپریم کورٹ بار میں نائب صدر اور سیکرٹری کی سیٹوں پر حامد خان گروپ کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں ضلعی عدلیہ کے ججز کی استعداد کار بڑھانے کیلئے تربیتی پروگراموں کا سلسلہ جاری رہا۔ لاہور ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں میں سکیورٹی سخت کر دی گئی۔ آئینی ماہرین اور وکلاء کا کہنا ہے کہ سال2015میں میں جو عدالتی نظام کی بہتری کیلئے کام مکمل نہیں ہو سکا اسے آئندہ سال کیا جانا چاہئے۔