• news

مدارس رجسٹریشن‘ نصاب پر اتفاق : ایوان کی رہنمائی سے فیصلے سویلین اتھارٹی کر رہی ہے : نثار

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ خبر نگار خصوصی+ بی بی سی+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزےر داخلہ چودھری نثار نے کہا ہے کہ ملک کو شیعہ سنی یا کسی اور مسلک کا نہ بنائیں، صرف مسلمانوں کا ملک رہنے دےں، فاٹا مےں اصلاحات مشاورت سے تیار کرکے نیا نظام متعارف کرایا جائے گا، آپرےشن مکمل ہونے کے بعد فوج کے انخلا پر رےنجرز، اےف سی، پولےس سمےت دےگر سکےورٹی فورسز پر مشتمل فورس فوج کی جگہ سنبھالے گی جس کے لئے 48 ارب روپے مختص کر دیئے گئے، اڑھائی ماہ مےں جوائنٹ انوسٹی گےشن سےل فعال ہو جائے گا، حکومت اور مدارس مےں رجسٹریشن اور نصاب پر مکمل اتفاق ہوگیا، دہشت گردی کی جنگ ہم جیت رہے ہیں، یہ ابھی ختم نہیں ہوئی، اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ وہ قومی اسمبلی مےں وزارت داخلہ کی کارکردگی پر 2روز سے جاری بحث سمےٹ رہے تھے۔ چودھری نثار نے کہا کہ وزارت کی کارکردگی پر بحث میری رہنمائی کا باعث بنی، تمام ارکان کی رہنمائی اور تنقید پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اچھی بحث سے پارلیمنٹ اور ارکان کے بارے میں منفی تاثر ختم کرنے میں مدد ملے گی‘ چھ آٹھ ماہ بعد اس ایوان میں دوبارہ آکر بتاﺅں گا کہ کون سی تجاویز کو پالیسی کا حصہ بنایا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان کا فوکل پرسن ہوں اور اس کے حوالے سے تمام ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سینکڑوں غیر ملکی این جی اوز اجازت کے بغیر کام کررہی تھیں، نائن الیون کے بعد کس طرح این جی اوز اور غیر ملکی خفیہ اداروں کے لوگوں کو ویزے دیئے گئے دیکھ کر حیرت ہوئی این جی اوز بارے غیر ملکی دباﺅ حیرت انگیز تھا بعض بڑے ملکوں کے سربراہان نے وزیراعظم سے بات کی ہم نے جواب دیا کہ ہم این جی اوز کو پاکستان کے قانون کے تحت لانا چاہتے ہیں اب آن لائن نظام بنایا گیا 127 بین الاقوامی این جی اوز نے اجازت نامے کے لئے درخواست دی ہے جب کہ ماضی میں صرف سترہ این جی اوز اجازت یافتہ تھیں۔ یورپی یونین کے ممالک سمیت مغربی ممالک کو خط لکھ رہا ہوں کہ وہاں رہنے والے پاکستانیوں کو شک کی نظر سے نہ دیکھیں۔ ماضی مےںکوائف کے بغیر ہزاروں افراد کو ممنوعہ بور کے لائسنس جاری کئے گئے۔ بوگس قرار دیئے جانے والے لائسنس ہولڈرز کے خلاف یکم جنوری سے کارروائی شروع کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی مےں سوات اور شمالی وزیرستان میں بھی کامیاب آپریشن ہوئے مگر دہشت گردی پورے ملک میں پھیل گئی مگر آپریشن ضرب عضب کے بعد ہماری حکومت نے آپریشن کے فال آﺅٹ کو سنبھالا، ملک بھر میں دہشت گردی کی وارداتیں کم ہوئیں، عوام کی سپورٹ کے بغیر کوئی ملٹری آپریشن کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے وزیراعظم نے آپریشن ضرب عضب سے قبل اے پی سی بلا کر اس پر اتفاق رائے حاصل کیا حکیم اﷲ محسود کے مارے جانے پر میں نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا میں نے امریکہ کو کہا تھا کہ اس نے امن کو سبوتاژ کیا۔ ملٹری اور سول حکومت نے مل کر کام کیا میں نے وزیراعظم کی منظوری سے ضرب عضب شروع ہونے کے بعد 30 ہزار فوجیوں کو شہروں میں تیسرے دفاعی حصار کے طور پر تعینات کیا۔ اب بھی 10 ہزار فوجی شہروں میں تعینات ہےں۔ خفیہ اطلاعات کی بناءپر دہشت گردوں کے خلاف ملک بھر مےں 12 ہزار آپریشن کئے، دہشت گردوں کے معاون و مددگار عناصر کے خلاف بھی کارروائی کی گئی۔ دہشت گردی کی جنگ ہم جیت رہے ہیں، جنگ ختم نہیں ہوئی، دوسری طرف سے حملے ہونگے لیکن کوئی مایوسی نہ پھیلائے۔ انہوں نے کہا کہ آن لائن ویزا سسٹم آئندہ 2 ماہ میں شروع کردیا جائے گا۔ اسلام آباد مےں آپرےشن کی باتےں کی گئےں۔ 2007ءمےں بھی آپرےشن ہوا اور اسکا کےا نتےجہ نکلا سب کے سامنے ہے، اس آپرےشن مےں 100سے زائد معصوم جانےں ضائع ہوئےں، اس وقت اسلام آباد میں 25 ہزار مدارس کے طلبہ ہیں کچھ قانونی اور کچھ غیر قانونی۔ 2007ءمیں بڑا آپریشن کرنے کے بعد مولانا عبدالعزیز صاحب کو دوبارہ لال مسجد میں کیوں لایا گیا، اگر یہی کرنا تھا تو پھر آپریشن کی کیا ضرورت تھی، میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر ےہ مولانا قانون توڑیں گے تو انکے خلاف اےکشن ہو گا، کسی کےس کے بغےر کسی کےخلاف کارروائی نہےں کی جا سکتی، ان کےخلاف سابق کیس سپریم کورٹ نمٹا چکی ہے، میں چند لوگوں کی وجہ سے تمام مدارس پر بندوقوں سے حملہ آور نہےں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جب گرین بیلٹ پر غےر قانونی طور پر مدارس بن رہے تھے تو سابق حکومتیں کیا کر رہی تھیں؟ تمام مدارس جدید عصری علوم پڑھانے پر متفق ہوگئے ہیں، اب مدارس کے نصاب مےں قرآن و حدےث کی تعلےمات کے ساتھ انگلش، رےاضی اور سائنسی مضامےن بھی پڑھائے جائےں گے۔ اسلام نہ لبرل ازم ہے نہ بنےاد پرستی بلکہ ےہ میانہ روی کا دین ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ایوان کی رہنمائی سے فیصلے سویلین اتھارٹی کر رہی ہے۔ فرقہ بندی کے جرائم کہیں بھی نظر آئے تو کارروائی ہو گی۔ بی بی سی کے مطابق وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں قائم دینی مدارس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت کے معاون ہیں، ہدف نہیں ہیں۔ ا±نہوں نے کہا کہ ابھی تک دہشت گردی میں ملوث کسی بھی مدرسے کے بارے میں ثبوت فراہم نہیں کیے گئے۔ ا±نہوں نے کہا کہ اگر کوئی کسی دینی مدرسے سے پڑھ کر دہشت گردی کرتا ہے تو پھر جدید تعلیم دینے والے اداروں سے پڑھنے والے بھی شدت پسندی میں ملوث رہے ہیں تو کیا حکومت ان تعلیمی اداروں کے خلاف بھی کارروائی کرے؟ چودھری نثار نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں لال مسجد آپریشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کو دوبارہ اسی جگہ واپس لانا تھا تو پھر اس فوجی آپریشن کی کیا ضرورت تھی۔ دریں اثناءسینٹ میں خطاب کرتے ہوئے چودھری نثار نے بتایا کہ پشاور سکول حملے کے بعد اس سال دہشت گردی کے واقعات میں کمی دیکھی گئی لیکن سرکاری اعداوشمار کے مطابق 1100 سے زائد واقعات ریکارڈ کئے گئے۔ ان واقعات میں تقریباً 650 مبینہ شدت پسند ہلاک ہوئے جبکہ 710 گرفتار ہوئے۔ انہوں نے سینٹ میں سینیٹر سحر کامران کی جانب سے کیے جانے والے ایک سوال کے جواب میں اعداد و شمار بتائے۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے ساڑھے چھ سو سے زائد واقعات رونما ہوئے۔ دوسرے نمبر پر شورش سے متاثرہ صوبہ بلوچستان رہا جہاں تقریباً 200 واقعات رونما ہوئے جن میں 100 کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ حکام کا کہنا ہے کہ 2015ءمیں 193 واقعات کے ساتھ خیبر پی کے تیسرے نمبر پر رہا۔ پنجاب میں 55 جبکہ سندھ میں 36 شدت پسند ہلاک ہوئے۔ سال 2014ءکے مقابلے میں عام شہریوں اور شدت پسندوں دونوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں کمی دیکھی جاسکتی ہے۔ سال 2014 میں تقریباً 1800عام شہری اور 3200 شدت پسند مارے گئے تھے۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے ایوان بالا کو بتایا کہ افغانستان کے ساتھ سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کا دائرہ اختیار طورخم تک بڑھانے، 450 کلومیٹر طویل سرحد پر گاڑیوں اور انسانی آمد و رفت روکنے کے لیے رکاوٹیں بنائی گئی ہیں۔ سرحد پر گشت بھی بڑھائی گئی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن