تفتیشی افسر کی رپورٹ مسترد‘ ڈاکٹر عاصم پر دہشت گردی کا مقدمہ برقرار‘ پولیس نے تحویل میں لے لیا‘ آج عدالت میں پیش کیا جائیگا
کراچی (نوائے وقت رپورٹ+نیوز ایجنسیاں) ڈاکٹر عاصم کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے فیصلہ دیدیا، عدالت نے تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین کی رپورٹ مسترد کردی اور حکم دیا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کر کے آج انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 2 میں پیش کیا جائے، شواہد سے لگتا ہے کہ جرم ہوا، بادی النظر میں مقدمہ بنتا ہے۔ عدالتی فیصلے میں جے آئی ٹی رپورٹ کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں ڈاکٹر عاصم دہشت گردوں کے علاج کا اعتراف کر چکے ہیں، عدالتی فیصلہ تین صفحات پر مشتمل ہے۔ عدالت نے تفتیشی افسر کی 479 کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے مقدمہ ٹرائل کورٹ منتقل کردیا۔ دہشت گردی کی دفعات برقرار رکھی گئیں۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بادی النظر میں ڈاکٹر عاصم کے خلاف شواہد موجود ہیں۔ فیصلے کے بعد پولیس نے ڈاکٹر عاصم کو حراست میں لے لیا، انہیں آج عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ قبل ازیں نئے تفتیشی افسر نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کے کیس میں سابق تفتیشی افسر نے زمینی حقائق کو نظرانداز کیا، افسران بالا کی اجازت سے مقدمے سے انسداد دہشت گردی کی دفعہ ختم کردی۔ ڈاکٹر عاصم کیخلاف ثبوت نہیں ملے۔ سابق تفتیشی افسر کسی گواہ کو پیش نہیں کرسکے۔ دہشت گردی مقدمے کا کوئی گواہ اور شہادت نہیں۔ اس موقع پر رینجرز کے وکیل حبیب احمد نے کہا کہ تفتیشی افسر تبدیل ہوا اور سرکاری وکیل بھی تبدیل کردیا گیا، اس میچ میں باﺅلر اور بیٹسمین ایک ہی ٹیم کے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کیس میں تفتیشی افسر خود عدالت بن گئے۔ تفتیشی افسر کو اے ٹی سی کا ملزم بری کرنے کا اختیار نہیں۔ ڈاکٹر عاصم نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوںکہ مجھے نشانہ بنایاجارہا ہے۔ میرا دل دکھی ہے اسی لئے آواز اٹھائی۔ میں بھی سابق فوجی ہوں، میری جان ملک کیلئے حاضر ہے۔ یہ بل کی جعلی کاپی لارہے ہیں۔ گن پوائنٹ پر ریکارڈپر قبضہ اور تبدیلی کی گئی۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ انہیں 4 دسمبر کو کیس کی تفتیش سونپی گئی لیکن سابق تفتیشی افسر نے تعاون نہیں کیا، کیس سے متعلق رینجرز سے تفصیلات حاصل کی گئیں تاہم انکی جانب سے واجبات کی نقول اور دیگر تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں جس کے بعد ڈاکٹر عاصم کو دفعہ 497 کے تحت بری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نئے سپیشل پبلک پراسیکیوٹر نثار احمد درانی نے اپنے دلائل میں کہا کہ وہ پولیس کے تفتیشی افسر کی رپورٹ سے مطمئن ہیں، ڈاکٹر عاصم کو شخصی ضمانت پررہا کیا گیا لیکن اگر وہ کسی جرم میں ملوث پائے گئے تو شامل تفتیش کیا جاسکتا ہے۔ رینجرز لاءآفیسر نے تفتیشی افسر کی رپورٹ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ تفتیشی افسر نے کیس کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ ڈاکٹر عاصم نے عدالت میں اپنا بیان حلفی جمع کراتے ہوئے کہا کہ انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، پہلے بھی کہا کہ میری جان کو خطرہ ہے، بندوق کی نوک پر بیان لیا گیا، ان کے ساتھ زیادتی بند ہونی چاہئے، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پوری رات کھڑا کر کے رکھا جائے۔ قبل ازیں ڈاکٹر عاصم کے مقدمے میں سپیشل پبلک پراسیکیوٹر کو تبدیل کرنے کے فیصلے کو رینجرز نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور رینجرز کے وکیل عنایت اللہ درانی نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ محکمہ داخلہ نے چھٹی والے دن خاموشی سے سپیشل پبلک پراسیکیوٹر مشتاق جہانگیری کو ہٹا کر اپنے من پسند وکیل نثار احمد درانی کو تعینات کر دیا۔ پراسیکیوٹر کی تبدیلی سندھ حکومت کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے، حکومت سندھ ڈاکٹر عاصم کو بچانے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔رینجرز کے وکیل نے کہا کہ مقدمہ تفتیشی مراحل میں ہے اور اس دوران کسی کو بھی پراسیکیوٹر تبدیل کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا، تبدیلی غیر قانونی ہے۔ عدالت نے رینجرز کی درخواست منظور کرتے ہوئے جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ تشکیل دے دیا۔دوسری جانب سول سوسائٹی کی ایک بڑی تعداد نے ڈاکٹر عاصم کی ممکنہ رہائی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کے ہاہر دھرنا دیا۔ دریں اثناءسندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو اور جسٹس عبدالمالک پر مشتمل بینچ میں ڈاکٹر عاصم کی والدہ کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزار کے وکیل کی عدم موجودگی کے باعث سماعت 28 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔ ڈاکٹر عاصم کی والدہ ڈاکٹر اعجاز فاطمہ نے درخواست میں مو¿قف اختیار کیا ہے کہ رینجرز تفتیشی افسر پر دباﺅ ڈال رہی ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ رینجرز کو مداخلت سے روکا جائے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر عاصم کے وکیل انور منصور خان نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ مجھ پر کیس چھوڑنے کیلئے بہت دباﺅ ڈالا جا رہا ہے، مجھے پیغام دیا گیا ہے کہ آپ ایک سابق فوجی ہو کر ایک ملزم کو بچانا چاہتے ہیں ڈاکٹر عاصم کرپٹ انسان ہیں ان پر بھروسہ مت کیجئے گا، مجھے دھمکی آمیز میسج میں کہا گیا کہ ہمارے دوست ناراض ہیں آپ اس کا کیس کیسے لڑ سکتے ہیں انور منصور نے کہا کہ میرے پاس یہ میسح ابھی بھی محفوظ ہے اور وہ میں جج صاحب کو چیمبر میں دکھا سکتا ہوں، میں بھی سابق فوجی ہوں اور بھارت میں دو سال جیل کاٹ کر آیا ہوا ہوں۔بی بی سی کے مطابق عدالت نے ڈاکٹر عاصم کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کا حکم دیا ہے اور پولیس کو انہیں اس کیس میں گرفتار کرنے کی ہدایت کی وہ اس سے قبل نیب کی تحویل میں تھے۔ دریں اثنا رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کیس میں تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ رینجرز کی جانب سے آج درخواست دائر کئے جانے کا امکان ہے۔ انسداد دہشت گردی کی دفعہ27 کے تحت کیس درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تفتیشی افسر نے ٹھوس شواہد جان بوجھ کر نظرانداز کئے۔ گرفتار ملزم کو ازخود رہا کیا۔
ڈاکٹر عاصم کیس