شوکت عزیز کی تجویز پر ایمرجنسی لگائی‘ اسے منسوخ نہ کرنے پر جنرل (ر) کیانی بھی مرکزی ملزم ہیں: مشرف
اسلام آباد(آن لائن) سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کا اعلان پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور دیگر سینیئر سویلین اور فوجی تنظیمی ڈھانچے سے وابستہ افراد کی مشاورت کے بعد کیا تھا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ’انصاف کی فراہمی کے نام پر قانون سازی اور ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت کررہے تھے۔ 9 مارچ کے اقدام پر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخار چودھری اور ان کے بیٹے کے خلاف دائر ریفرنس کے بعد وہ میرے ساتھ انتقام پر اتر آئے تھے، سابق صدر کی جا نب سے ایف آئی اے کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کو ریکارڈ کرائے گئے بیان میں سابق فوجی سربراہ جنرل کیانی کو بھی انہو ں نے مرکزی ملزم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل کیانی 27 نومبر 2007 کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر ہوئے لیکن انھوں نے ایمرجنسی منسوخ نہیں کی۔ پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ ’اسے منسوخ نہ کرنے پر جنرل کیانی بھی مرکزی ملزم ہیں‘ سابق فوجی آمر نے اس بات پر زور دیا کہ جنرل کیانی کے ساتھ ساتھ انہوں نے سینیئر سویلین اور فوجی رہنماؤں جن میں وزیراعظم شوکت عزیز بھی شامل ہیں سے مشاورت کی تھی۔جنرل مشرف نے الزام لگایا کہ ’شوکت عزیز اور اْس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد (جو موجودہ حکومت کی کابینہ کے رکن بھی ہیں)، جسٹس (ر)عبدالحمید ڈوگر اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے دیگر ججز، فوج کے تمام سینئر ارکان خاص طور پر جنرل کیانی، تمام وزرا، تمام گورنرز، وفاقی اور صوبائی کابینہ کے ارکان، قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے ارکان، سینیئر وفاقی اور صوبائی بیوروکریٹس ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے مرکزی ملزم، مددگار اور سہولت کار ہیں‘۔سابق آمر نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے ایمرجنسی کا اعلان اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کی تجویز پر کیا تھا، لیکن اس کی سمری حیرت انگیز طور پر سرکاری ریکارڈ سے کچھ ’متعلقہ‘ لوگوں نے غائب کردی۔انھوں نے کہا کہ 2008 میں میرے صدارت چھوڑنے کے بعد کچھ لوگوں نے ذاتی طور پر 3 نومبر 2007 کے حوالے سے بنائی جانے والی سمری کو ریکارڈ سے غائب کردیا ہے۔ ان کے بیان کے مطابق مذکورہ سمری 2013 میں سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے لائی گئی تھی۔ پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری انصاف کی فراہمی کے نام پر قانون سازی اور ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت کررہے تھے۔ 9 مارچ کے اقدام پر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخار چودھری اور ان کے بیٹے کے خلاف دائر ریفرنس کے بعد وہ میرے ساتھ انتقام پر اتر آئے تھے، اس ریفرنس کا فیصلہ اب تک نہیں ہوا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کو نیک نیتی سے قبول کیا لیکن اس کے بعد صورت حال خراب ہوتی چلی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بدقسمتی سے عدالتی فیصلوں کے تحت 61 ایسے دہشت گرد رہا کیے گئے جنہوں نے کراچی، راولپنڈی، سرگودھا، خیبر پی کے اور بلوچستان میں پناہ حاصل کر رکھی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے بہت سے مقامات تھے جہاں دہشت گردوں اور ان کے عزیزوں نے حکومت کے اختیارات کو چیلنج کیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مقابلہ کیا۔ سابق آمر نے کہا کہ اْس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے 3 نومبر 2007 کو ایک خط بعنوان ’’قومی سکیورٹی کی صورت حال‘‘ کے ذریعے ملک میں جاری دہشت گردی، عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے حوالے سے مجھے آگاہ کیا اور عدلیہ کی جانب سے ان کے حدود سے تجاوز کرنے کے بڑھتے ہوئے عام خیال کا بھی ذکر کیا‘‘۔جنرل مشرف نے دعویٰ کیا کہ شوکت عزیز مذکورہ خط کے ذریعے ایمرجنسی لگوانا چاہتے تھے لیکن میں نے سختی سے اسے مسترد کردیا اور کہا کہ اگر وزیراعظم اس حوالے سے باقاعدہ سمری بھیجیں تو وہ ان کے مشورے کے مطابق ہدایت دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد وزیراعظم شوکت عزیز نے مجھے اپنے سٹاف کے ذریعے سمری بھیجی جو میں نے صدارتی ہاؤس میں وصول کی۔ اپنے دفاع میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ اقدام آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اٹھایا تھا۔ انہوں نے تفتیشی ٹیم کو تجویز دی کہ وہ ’نامزد کیے جانے والے متعلقہ افراد سے ملاقات کرے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان سرکاری اہلکاروں نے کبھی بھی ایمرجنسی کے نفاذ کے معاملے میں مشاورت نہ دینے کو مسترد نہیں کیا ہے اور نہ ہی کبھی اس کی وضاحت کی ہے۔ پرویز مشرف کے بیان کے مطابق 2010 میں ہونے والی اٹھارہویں ترمیم کے باعث آرٹیکل 6 میں ترمیم ہوچکی ہے اور اٹھارویں ترمیم کے ذریعے مذکورہ آرٹیکل میں لفظ ’معطل‘ اور ’عارضی التواء کو شامل کیا گیا‘ مزید یہ کہ وہ 2007 میں ان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدام پر اسے لاگو نہیں کرسکتے۔انھوں نے مزید کہا کہ انہوں نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو کہا ہے کہ ’وزیراعظم شوکت عزیز اور ان کی کابینہ کی جانب سے ایمرجنسی کی تجویز اور میری جانب سے اسے منظور کیے جانے پر مجھ پر مقدمہ نہیں بنایا جا سکتا۔