• news

تربیتی کیمپ: اظہر‘ حفیظ کا عامر کی موجودگی پر شرکت سے انکار

لاہور (سپورٹس رپورٹر + نمائندہ سپورٹس + نوائے وقت رپورٹ + بی بی سی) پاکستان کرکٹ ٹیم کے ممکنہ کھلاڑیوں کیلئے لاہور میں جاری تربیتی کیمپ میں آئی سی سی کے سزا یافتہ فاسٹ باولر ایم عامر کو بھی طلب کرنے پر کھلاڑی گروپنگ میں تقسیم ہو گئے۔ ون ڈے ٹیم کے کپتان اظہر علی سمیت سابق کپتان ایم حفیظ نے فزیکل فٹنس کیمپ میں شرکت سے معذرت کر لی۔ دونوں کھلاڑی گذشتہ روز قذافی سٹیڈیم میں پریکٹس کے دوران موجود نہیں تھے۔ غیر ملکی ویب سائیٹ نے اظہر علی کو کوڈ کرتے ہوئے کہاکہ جب تک سزا یافتہ عامر کیمپ میں موجود ہے وہ کیمپ کو جوائن نہیں کرینگے جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان نے بھی میڈیا کو اس بات کی تصدیق کی کہ ایم حفیظ بھی عامر کی کیمپ میں موجودگی کے باعث فزیکل فٹنس کے سیشن میں شریک نہیں ہوئے۔ پاکستان ٹیم کا کوچنگ سٹاف بھی تمام صورتحال میں گو مگوں میں رہا اور مختلف ٹولیوں کی شکل میں مشاورت کرتا دکھائی دیا۔ چیف سلیکٹر ہارون رشید قذافی سٹیڈیم پہنچے اور کافی دیر تک ہیڈ کوچ وقار یونس اور باولنگ کوچ مشتاق احمد اور شاہد آفریدی کے ساتھ مشاورت کرتے رہے۔ ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والے فزیکل فٹنس کیمپ میں کھلاڑی بھی میڈیا سے اجتناب کرتے دکھائی دیئے۔ نوائے وقت نے ون ڈے ٹیم کے کپتان اظہر علی سے رابطہ کیا تو اس کا کہنا تھا کہ میں نے کسی ویب سائٹ کو کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے، ابھی اس معاملے پر کوئی بات نہیں کر سکتا۔ چیئرمین پی سی بی شہریار خان سے ملاقات کر کے تمام تحفظات کے بارے میں انہیں آگاہ کیا جائے گا۔ سپاٹ اور میچ فکسنگ میں سزا پوری کرنے والے فاسٹ باولر ایم عامر سے قومی ٹیم کے ناراض ون ڈے ٹیم کے کپتان اظہر علی اور سابق کپتان ایم حفیظ آج چیئرمین پی سی بی شہریار خان سے ملاقات کرینگے۔ دونوں کھلاڑی ٹیم میں تحفظات سے آگاہ کرینگے۔ جس کی روشنی میں فزیکل فٹنس کیمپ کو جوائن کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلٰی عہدیداران میں قومی ٹیم میں گروپ بندی کے جنم لینے والے عنصر پر چپ سادھ لی ہے جبکہ میڈیا ڈیپارٹمنٹ نے تمام صورتحال پر کھلاڑیوں اور چیف سلیکٹر کو میڈیا سے دور رکھنے کے لیے قذافی سٹیڈیم کے دوسرے دروازے سے نیشنل کرکٹ اکیڈمی روانہ کر دیا جبکہ کھلاڑیوں اور ہیڈ کوچ کی این سی اے پہنچایا۔ ذرائع کے مطابق دونوں باغی کھلاڑیوں سے فوری وضاحت طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلہ میں معاملہ کا جائزہ لینے کے لیے ڈسپلنری کمیٹی کو ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کا کہنا ہے کہ محمد عامر کی واپسی پر کھلاڑیوں اور کپتانوں کے تحفظات ہیں اور یقیناً کرکٹ بورڈ کے لوگوں کے بھی ہوں گے۔ لوگ کہتے ہیں کہ محمد عامر نے سزا پوری کر لی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سب نے انہیں معاف کر دیا ہے کیونکہ کسی کی یہ ذاتی لڑائی نہیں ہے لیکن ان کی واپسی کا جو اثر ہوگا وہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے جس کا کسی کو ابھی اندازہ نہیں ہے۔ کسی بھی کپتان کے لیے محمد عامر کی موجودگی میں صورت حال کا سامنا کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔ پاکستان کی ٹیسٹ سیریز جولائی میں ہے لیکن اس سے قبل ٹیم نے ون ڈے اور ٹی 20 میچ کھیلنے ہیں ان حالات میں کپتانوں سے تیزو تند سوالات بھی ہوں گے اور کراؤڈ کے شدید ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑے گا لہٰذا یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر بہت سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ مصباح الحق نے پاکستان سپر لیگ کو پاکستانی کرکٹ کے لیے انتہائی اہم ایونٹ قراردیتے ہوئے کہا کہ اس سے پاکستانی کھلاڑیوں کو فائدہ ہوگا۔ مصباح الحق سے پوچھا گیا کہ پاکستان سپر لیگ کھیلنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ابھی بھی ٹی 20 کے بہترین بیٹسمین ہیں تو پھر انٹرنیشنل ٹی 20 سے کیوں ریٹائر ہوئے؟ جس پر ان کا جواب تھا کہ یہ سوال اس وقت کی سلیکشن کمیٹی مینجمنٹ اور بورڈ کے لوگوں سے کیا جائے جس نے ان سے ورلڈ ٹی 20 سے صرف ایک مہینے پہلے ان سے ٹی 20 چھوڑنے کی درخواست کی تھی اور فیصلہ کیا تھا کہ وہ نوجوان ٹیم بنانا چاہتے ہیں۔ سپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں ان کے ساتھ ذاتی مسئلہ نہیں ، ہر کسی نے انھیں معاف کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود اس واقعے کا اثر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس سوال کہ بطور کپتان اس مسئلے کا کیسے سامنا کریں گے‘ جو بھی کپتان ہو گا اس کے مشکل تو ہو گی۔ سوال ہوں گے اور آپ کو ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔تماشائیوں کا بھی ردعمل ہوسکتا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریارخان نے کہا ہے کہ وہ سپاٹ فکسنگ‘ میں سزا یافتہ محمد عامر کی مخالفت کرنے والے کرکٹرز اظہرعلی اور محمد حفیظ سے بات کریں گے تاہم اگر وہ نہیں مانے تو ان کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔ وہ اس مسئلے پر پہلے بھی سب سے بات کرچکے ہیں اور اب دوبارہ کریں گے لیکن ان کے نہ ماننے کی صورت میں دیکھا جائے گا کہ ان کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کیا کارروائی ہوسکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن