احتساب عدالتوں میں کچھ عرصہ سناٹے کے بعد ’’رونقیں‘‘ بحال ہونے لگیں
لاہور (شہزادہ خالد) احتساب عدالتوں میں کچھ عرصہ سناٹا چھانے کے بعد ’’رونقیں‘‘ بحال ہونے لگیں۔ قومی ایکشن پلان کی منظوری تک لاہور کی5 احتساب عدالتوں میں اڑھائی سو کے قریب مقدمات رہ گئے تھے جن میں صرف ایک سیاسی شخصیت چودھری ذوالفقار کیخلاف کرپشن کا کیس شامل تھا۔ رواں برس 10 سیاستدانوں کیخلاف کیس نیب عدالتوں میں آئے۔ 1999ء میں قائم ہونے والی احتساب عدالتوں میں کرپشن کے ہزاروں مقدمات کی سماعت ہوئی جن میں لوٹے گئے اربوں روپے ملکی خزانے میں واپس کرائے گئے۔ نیب کورٹس میں سینکڑوں سیاستدانوںکے کیخلاف کرپشن کے الزام میں کیس دائر کئے جن میں کئی بری ہوئے اور متعددکو سزا سنائی گئی۔ احتساب عدالتیں جاوید ہاشمی، جہانگیر بدر، حاکم علی، سہیل ضیاء بٹ، منظور وٹو سمیت متعدد سیاستدانوں کے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت کر چکی ہیں۔ احتساب عدالتوں نے 17برسوں کے دوران دو ہزار کے قریب نامزد ملزمان کو قید و جرمانے کی سزائیں سنائیں۔ 8 سالہ جمہوری دور میں صرف 48ملزمان کو قید و جرمانے کی سزائیں دی گئیں۔ سزا پانے والوں میں منظور وٹو، ہاشم بابر، انور سیف اللہ خان، حاکم علی زرداری، اختر علی وریو، ریاض فتیانہ، اکبر علی بھٹی، رانا تنویر حسین، چوہدری حاکم علی اور حاجی نواز کھوکھر وغیرہ شامل ہیں جبکہ خالد کھرل، خوش اختر سبحانی اور اختر علی وریو و غیرہ احتساب عدالتوں سے بری ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں کسی قابل ذکر سیاستدان کو سزا نہیں سنائی گئی۔ اس دور میں جاوید ہاشمی، جہانگیر بدر ، چودھری حاکم علی، رانا نذیر احمد، سہیل ضیاء بٹ اور غلام مرتضی کھر وغیرہ کو بری کیا گیا۔ عارف نکئی کے علاوہ چودھری شیر علی اور میاں منظور وٹو نے بھی پلی بارگینگ کے ذریعے رہائی پائی۔ چودھری شیر علی، چودھری عبدالحمید اور طارق انیس کے خلاف دائر ریفرنس از خود واپس لے لئے گئے۔ 15 سال گزر جانے کے باوجود لاہور میں پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ کا معاملہ حل نہ ہو سکا۔ الاٹمنٹ کیس میں سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین سمیت کئی اہم سیاسی شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔