بینظیر بھٹو کی آٹھویں برسی
پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی آج آٹھویں برسی منائی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں مرکزی تقریب گڑھی خدا بخش میں منعقد ہو گی۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے کمال مہارت سے پارٹی کی کمان سنبھالی تو تمام سیاسی پارٹیوں کو پیچھے چھوڑ دیا انہوں نے ہر قسم کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنے اصولوں کو اپنا ہتھیار بنا کر مخالفین کو زیر کیا۔ نام کی طرح انکی زندگی بھی بے نظیر تھی۔ انہیں بے شمار اعزازات کے ساتھ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا بھی اعزاز حاصل تھا۔ انہوں نے کئی سال جلا وطنی کے کاٹے لیکن سابق آمر پرویز مشرف نے جب آئین پر شب خون مارا تو محترمہ نے دیگر جماعتوں کے قائدین کے ساتھ مل کر اے آر ڈی کے پلیٹ فارم سے مشرف حکومت کے خلاف بھرپور مزاحمت کا فیصلہ کیا اور میاں نواز شریف کے ساتھ مل کر لندن میں میثاق جمہوریت معاہدہ کیا۔ آج اسی فلسفے کے تحت جمہوریت کامیابی سے بہتری کی طرف گامزن ہے۔ وہ حقیقت میں چاروں صوبوں کی زنجیر تھیں۔ انکی شہادت کے بعد کوئی شخصیت ایسی نہیں جسے یہ اعزاز حاصل ہو۔ ہر پارٹی ایک صوبے یا چند شہروں تک محدود ہے۔ بینظیر بھٹو نے وفاق کو مضبوط کیا۔ اسی بناء پر اپنے اور پرائے انہیں وفاق کی علامت کہتے تھے۔ وہ ایک نفیس اور کرشماتی شخصیت کی مالک تھیں۔ پیپلز پارٹی اور قومی سیاست میں آج ایسی کرشماتی شخصیات مفقود ہو چکی ہیں اور آج پی پی کے اپنے کارکنان بھی اس تجسس میں ہیں کہ پیپلز پارٹی کے اقتدار کے پانچ سال پورے ہو گئے مگر ان کی قائد بے مثل کے قاتلوں کا پتہ نہیں چل سکا۔ آصف علی زرداری کہتے تھے کہ مجھے قاتلوں کے بارے علم ہے مگر وہ قوم کو نہیں بتا سکے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے عام انتخابات میں لاڑکانہ میں کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر بینظیر کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے لیکن اقتدار ملنے کے بعد انہوں نے بھی اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ حکومت اگر قومی لیڈروں کے قاتلوں کا کھوج نہیں لگا سکتی تو وہ عوام کا تحفظ کیسے کریگی۔ حکومت بینظیر کے قاتلوں کو تلاش کر کے انہیں منطقی انجام تک پہنچائے۔