اتوار ‘ 15 ربیع الاوّل 1437ھ‘ 27 دسمبر 2015ء
لودھراں کی فتح پر عمران خان فرحاں و شاداں۔
سچ کہتے ہیں۔ دیر سے ملنے والی چھوٹی سی خوشی کی بھی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ لودھراں الیکشن تو عمران خان کے لئے واقعی
’’غم ہے یا خوشی ہے تو میری زندگی ہے تو‘‘ والا گیت بن گیا تھا۔ اس بار قسمت نے یاوری کی اور خان صاحب قسمت کے دھنی ٹھہرے۔ ان کا مہرہ جیت گیا۔ اس کے بعد جہاں تحریک انصاف والوں کے گھر والوں میں چراغاں ہے وہاں مسلم لیگ (ن) والوں کے ہاں اماوس کی رات طاری ہے۔ اب عمرانی بلا ایک بار پھر دیکھیں کس طرح لیگی شیر کے تعاقب میں نکلتا ہے۔ فی الحال تو کہیں اور الیکشن کا وہ دنگل سجا نظر نہیں آرہا۔ عمران خان کے موڈ اور سیاست کا بہرحال کوئی اندازہ نہیں۔
کب اچانک وہ کسی نئی تحریک یا دھرنے کے شغل میں نکل پڑیں انہیں کون روک سکتا ہے۔ ویسے بھی آج کل ان کے برادر اکبر مولانا طاہر القادری بھی چھٹیاں منانے‘ سالانہ حساب کتاب دیکھنے پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں وہ حساب کتاب سے کب فارغ ہو کر برادر اصغر سے رابطہ کرتے ہیں اور اسلام آباد میں سردیوں کی دھوپ سینکنے کے لئے کیا پلان بناتے ہیں۔ ویسے بھی جاڑوں کی دھوپ کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ جیب گرم ہو تو فواکہات کے ساتھ گرما گرم کشمیری چائے خوب رنگ جماتی ہے… اور اگر ارد گرد حلقہ یاراں و مریدانِ نعرہ زن ہو تو پھر شب کی ہاؤ ہو کی محفل کا رنگ ہی کچھ اور جمتا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ دونوں اب کون سا پلان تیار کرتے ہیں…
…٭…٭…٭…٭…٭…
راحیلہ درانی بلوچستان اسمبلی کی سپیکر منتخب
بلوچستان اسمبلی میں پہلی باریہ رنگینئی نوبہار اس طرح رنگ بکھیرتی نظر آئی ہے کہ سپیکر جیسے باوقار اور طاقتور عہدے پر ایک خاتون کا تقرر عمل میں آیا۔ روایتی سخت گیر قدامت پسند صوبے میں یہ تبدیلی کا ایک استعارہ بھی ہے اور تازہ ہوا کا جھونکا بھی۔ راحیلہ درانی کا تعلق پشتو بولنے والے طبقے سے ہے جہاں سے بہت کم خواتین بلوچستان کے سیاسی میدان کا رخ کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی نسبت بلوچ خواتین نے جس طرح طلبہ کی سیاست سے لے کر عملی سیاست میں کھل کر حصہ لیا اور جبر کے ماحول کو بدلنے کا آغاز کیا تھا آج اس کے اثرات ہمارے سامنے ہیں۔ راحیلہ درانی کا انتخاب ثابت کرتا ہے کہ اب بلوچستان کے سیاستدان اور ممبران اسمبلی بھی خواتین کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے لگے ہیں۔ اس سے قبل اسی قسم کی تبدیلی خیبر پی کے میں آئی جہاں کی اسمبلی نے جیسے تیسے پہلی بار ایک خاتون کو سپیکر منتخب کر لیا۔ یہ واقعی ان دونوں صوبوں کے ممبران کیلئے بڑے دل گردے کا کام ہے۔ علاوہ ازیں سندھ میں بھی ڈپٹی سپیکر شہلا رضا یہ اوکھا کام نمٹاتی رہتی ہیں۔
اب بلوچستان اسمبلی کی خواتین ارکان اسمبلی تو بہت خوش ہونگی کہ ان کی آواز کے ساتھ ایک موثر طاقت بھی شامل ہوگئی ہے۔ ویسے جو خواتین وزیر بنتی ہیں وہ نجانے کیوں اپنا موثر کردار ادا نہیں کرتیں کیا ہی اچھا ہو کہ ایک بار پھر وہاں کوئی خاتون وزیر پری گل آغا جیسی دبنگ وزیر بن کر دکھائے۔ ویسے یہ ایک اچھی روایت ہے جس سے بلوچستان میں رہنے والے ہر خاتون کو خوشی ہوگی کہ اب تک ان کو صرف کمزور و ناتواں سمجھنے والوں نے انہیں اپنے پائے کا نہ سہی اپنے برابر کا انسان تو تسلیم کرلیا ہے۔ یہی خواتین کی صلاحیتوں کی‘ محنت اور جدوجہد کی جیت ہے۔ حیرت ہے کہ خادم پنجاب کی خادمیت نے کسی خاتون طرحدار کو پنجاب اسمبلی میں ایسا منصب سونپنے کیلئے اب تک جوش نہیں مارا۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
ملکی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا: وزیر خزانہ
بجا فرمانا ہے وزیر خزانہ کا۔ انہوں نے شاید عالمی اداروں سے قرضے لے لے کر بے شک عارضی طور پر معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ مگر یہ اس عارضی لیپاپوتی تک ہی محدود ہے جو منہ دھلنے کے بعد غائب ہو جاتا ہے۔ بقول شاعر…
زیست ہمسائے سے مانگا ہوا زیور تو نہیں
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کھو جانے کا
اس طرح ہمارے ماہرین معیشت بھی جانتے ہیں کہ مانگے تانگے کی یہ بیساکھیاں کسی کام نہیں آتیں۔ کیونکہ قرضے پہ قرضے کا بوجھ بہرحال معیشت نے ہی سہنا ہے۔ وزیر خزانہ نے تو نہیں‘ وہ تو کھائے پیئے اور کھسکے۔ آج بھی ہماری پوری معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہے۔ ان کی اسی قرضے لے کر معیشت بچانے کی غلط پالیسیوں سے ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ مگر ڈار صاحب فرماتے ہیں کہ معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ خوب کہہ رہے ہو بھائی… اسے بچانا کہتے ہیں تو ڈبونا کس کو کہتے ہیں عوام کا تو دیوالیہ نکل چکا ہے اور ان کی حالت ملکی معیشت سے زیادہ ابتر ہو چکی ہے۔ مکان تو پہلے ان کی پہنچ سے دور جا چکا اب وہ روٹی اور کپڑے سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ شاید یہی وہ عام آدمی کا تصور ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ عام آدمی مہنگائی سے متاثر نہیں ہو گا۔
اب اس عام آدمی کا پتہ عوام کو چل گیا ہے۔ یہ وہ آدمی ہے جو گیس‘ بجلی‘ پانی‘ روٹی‘ کپڑے اور مکان سے بے نیاز ہو۔ اب جو بھی ننگ دھڑنگ گندگی اور افلاس میں ڈوبا پاگل شخص…
بن کے مست ملنگ رہیں گے
اسحاق ڈار کے سنگ رہیں گے
کے نعرے لگاتا نظر آئے سمجھ لیں یہ ڈار صاحب کی مہربانی سے اس حالت کو پہنچا ہے اور یہی ان کا عام آدمی ہے…
…٭…٭…٭…٭…٭…