• news
  • image

جو کوئے یار سے نکلے … بینظیر بھٹو

میرے لئے 27دسمبر 2007ء کی شام کا اذیت ناک دکھ بھلانا ناممکن ہے۔ خزاں کی ڈھلتی شام کے سایوں میں نیلگوں آسمان پر شفق اتر رہی تھی۔ ایک طرف دھنک اپنے رنگ بکھیر رہی تھی کیونکہ ایک ایسی ہستی رزم گاہ عشق میں سربکف اتر رہی تھی جو گلستان میں لالہ و گل کی سرخی دیکھنے اس لئے آ رہی تھی کہ جان دینے کے سوا اس کو دیکھنے کی تاب نہ لا سکے گی آسمان کے افق پر پھیلی قوس قزح اس کے چہرے کے رخسار پر اتر رہی تھی۔ نور کا ہالہ ڈھلتے سورج کی سنہری کرنوں میں ان کے حسن اور معصومیت کو دوآتشہ کر رہا تھا۔ جلسہ گاہ میں وہ آمریت کے حواریوں پر خوب گرجیں۔ جلسہ ختم ہوا تو وہ بے حد خوش رنگ دکھائی دے رہی تھیں۔ گہرے نیلے رنگ کے سوٹ اور سفید دوپٹے میں ملبوس، گلے میں ہار ڈالے وہ یاد حقیقی (خدا) کے دیدار میں جل کر خاک ہو نے کے لئے بے چین تھیں مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ وہ جلوہ یار حقیقی کو پانے کی آرزو میں میری رقیب بن گئیں تھیں۔ بینظیر بھٹوکو دیکھ کر جذبہ عشق و وفا کی آبیاری کرنے والے ہر ذی روح کو ایسا لگ رہا تھا
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے
میں اسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے
وہ اپنی گاڑی میں سوار ہوئیں اور رخت سفر پر روانہ ہونے کی خاطر کسی انجانی قوت کے اثر میں سن روف سے باہر نکل آئیں پھر فائر، خودکش دھماکہ جانثاروں کے جلوہ میں وہ رتبہ شہادت پر فائز ہو گئیں
شہادت تھی مری قسمت میں، جو دی تھی یہ خو مجھ کو
جہاں تلوار کو دیکھا، جھکا دیتا تھا گردن کو
بینظیر بھٹو اپنی واپسی کے سفر کے متعلق خود بتاتی ہیں کہ 18اکتوبر 2007ء کے روز کراچی کے قائداعظم انٹرنیشنل ائرپورٹ پر قدم رکھتے ہوئے وہ جذبات کے ہاتھوں بڑی مغلوب تھیں۔ سارے پاکستان نے دیکھا کہ جب انہوں نے جلاوطنی کے آٹھ تنہا اور کٹھن سالوں کے بعد سرزمین وطن کو چھوا تو ہر موقع پر اپنے آپ پر قابو رکھنے والی بینظیر اپنے محسوسات کو آنکھوں کے راستے جھلکنے سے نہ روک سکیں۔بینظیر بھٹو جب دوبئی سے روانہ ہوئیں تو ان کے اہلخانہ اور دوستوں نے ان کی واپسی میں مضمر خطرات اور اندیشوں سے انہیں آگاہ کیا مگر بینظیر بھٹو کے دوبئی سے الوداعی لمحات جو دنیا کے تمام نشریاتی ادارے لائیو کاسٹ کر رہے تھے وہاں پر موجود اپنے حامیوں اور صحافیوں کے اجتماع کی طرف مڑی اور دل کی بات کہہ دی ’’یہ پاکستان کے لئے جمہوریت کی طرف واپسی کے ایک طویل سفر کی ابتدا ہے اور مجھے امید ہے کہ میرا واپس جانا تبدیلی کا محرک ثابت ہو گا۔‘‘ 1986ء میں بھی جب بینظیر بھٹو بیرون ملک جلاوطنی کا دور گزار کر پاکستان لوٹیں تو وہ بھٹو صاحب کی شہادت اور جیلوں کی سختیوں کی وجہ سے ایک نوجوان آہن گر کی خاتون لیڈر بن چکیں تھیں۔لاہور میں دس لاکھ کے عوام کے ہجوم نے ان کا استقبال کیا اور پورے پاکستان میں عوام نے ضیاء کی آمریت کے خلاف بینظیر بھٹو کو جمہوریت کا استعارہ تسلیم کر لیا۔ انہیں دو مرتبہ حکومت ملی مگر ضیاء الحق کے حواریوں نے انہیں چین سے نہ رہنے دیا اور خاتون وزیراعظم کو اسٹیبلشمنٹ کی طاقتوں نے تسلیم نہ کیا۔ دوسرا آصف علی زرداری کے ساتھ شادی کی وجہ سے بینظیر بھٹو پر بھی کرپشن کے الزامات لگے اور مقدمات بنے ان کے دور اقتدار میں ہی مرتضیٰ بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ 21سال بعد بینظیر بھٹو ایک دفعہ پھر اپنے ساتھیوں اور شوہر کی خاطر اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے الیکشن سے پہلے واپس پاکستان آ گئیں۔ انہیں شاید اس بات کا ادراک نہ تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی بے حد منظم ہو چکی ہے۔ جنرل مشرف کی طرف سے انہیں متعدد بار ان کی جان کو درپے خطرات سے آگاہ کیا گیا حتیٰ کہ بینظیر کا خود کہنا ہے کہ ایک ہمدرد غیر ملکی مسلم حکومت کی طرف سے مجھے مقرر کردہ قاتلوں کے نام اور موبائل فون نمبر بھی فراہم کر دئیے گئے تھے۔ بھٹو خاندان کے تو جینز میں ہے کہ وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے رہتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو پر سانگھڑ میں حروں نے حملہ کیا مگر وہ جلسہ گاہ میں کھڑے رہے۔ ضیاء الحق کے سامنے جھکنے سے انکار کیا اور تختہ دار پر فرازِ دارورسن پر جھول گئے اور ثابت کر دیا
جو چل سکو تو چلو کہ راہ وفا بہت مختصر ہوئی ہے
مقام ہے اب کوئی نہ منزل، فراز دارورسن سے پہلے
کراچی میں بینظیر بھٹو کا قافلہ کارساز کے مقام پر پہنچا تو بم دھماکوں سے فضا گونج اٹھی۔ بینظیر بھٹو کے ٹرک کے گرد آگ لگ گئی۔ برف خون، جلتا ہوا گوشت اور جسمانی اعضا پھیل گئے۔ پچاس سے زائد جیالے بینظیر بھٹو پر قربان ہو گئے۔ ایک مرتے ہوئے شخص کے ہونٹوں پر یہ دھیمی دھیمی آواز نکلتے سنی گئی۔ جئے بھٹو، ہونا تو چاہئے تھا کہ بینظیر بھٹو کے اردگرد اقتدار کے بھوکے اپنی لیڈر کو اس حادثے سے بچ جانے کے بعد انہیں کھلے جلسوں میں لے جانے سے اجتناب کرتے مگر وہ تو اقتدار حاصل کرنے کیلئے بینظیر بھٹو کو ہر حال میں شہید کروانا چاہتے تھے۔ پشاور میں بھی ان پر خودکش حملوں کا بڑا خطرہ تھا مگر ان کے حواری انہیں پشاور جلسے میں بھی لے گئے۔ راولپنڈی میں جلسے میں ان پر حملوں کے خدشات سے انہیں اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ندیم تاج نے بروقت آگاہ کیا مگر آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جلسہ کامیاب ہو گیا۔ اگرچہ جلسہ میں ان کا ذاتی ملازم خالد شہنشاہ عجیب و غریب اشارے اپنی گردن پر ہاتھ پھیر کر کر رہا تھا کیوں اور کیسے وہ بلٹ پروف گاڑی میں سے عوام کو ہاتھ ہلانے گاڑی سے باہر نکل آئیں۔یہ بھٹو خاندان کا مقدر تھا کہ وہ بھٹوز جن کے متعلق کبھی نصرت بھٹو نے کہا تھا کہ Bhuttos are always born for rule وہ سب غیر فطری موت کا شاہکار ہو گئے۔ نصرت بھٹو بھی شہید کسمپرسی میں اللہ کو پیاری ہو گئیں اور آج پیپلز پارٹی کے وارث وہ لوگ ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے…؎
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
بینظیر بھٹو ایک عہد ساز خاتون لیڈر تھیں۔ وہ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کے لئے اپنا کردار بھرپور ادا کیا۔ وہ جمہوریت پر یقین رکھتی تھیں ان کا خیال تھا کہ وہ جنرل مشرف کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرکے پاکستان میں جمہوریت کو بحال کروانے میں کامیاب ہو جائیں گی مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ اس کے لئے انہیں اپنی جان کی قربانی دینی ہو گی۔ جنوری 2007ء میں ابوظہبی میں بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے متعلق بینظیر خود بتاتی ہیں کہ انہوں نے جنرل مشرف سے تمام سیاسی ایشوز پر بات کی اور ان سب پر جنرل مشرف کا ردعمل مثبت تھا۔ انہوں نے بینظیر بھٹو کے کہنے پر وزیراعظم پر آئین میں دو مرتبہ سے زائد وزیراعظم منتخب ہونے پر پابندی ختم کی پاکستان کے لئے بینظیر بھٹو وزیراعظم اور پرویز مشرف صدر رہتے تو پاکستان کی سکیورٹی اور معاشی اور جمہوری استحکام کے لئے کافی بہتر ہوتا مگر بعض بین الاقوامی طاقتیں ایسا نہیں دیکھنا چاہتیں تھیں وہ تو شکر ہے کہ جنرل راحیل شریف نے مشرف کی پالیسیوں کو اختیار کرتے ہوئے دہشت گردی کی کمر توڑ دی اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت پاکستان کی معاشی کمر توڑ دی جبکہ بینظیر بھٹو
مقام فیض راہ میں کوئی جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

epaper

ای پیپر-دی نیشن