بے نظیر بھٹو سے مریم نواز تک؟
ہیلری کلنٹن کہتی ہے کہ میں اور میری بیٹی بے نظیر بھٹو کو دیکھنے کے لئے سڑک پر دوسرے لوگوں کے ساتھ دیر تک کھڑی رہی۔ اس کے لئے میرے دل میں ایک تڑپ تھی۔ میں اُسے نزدیک سے دیکھنا چاہتی تھی۔ ہیلری کی یہی بات مجھے اکساتی ہے کہ میں کہوں وہ امریکہ کی پہلی خاتون صدر ضرور بنے گی۔ دو دفعہ وزیراعظم بننے والی جذبوں سے بھری ہوئی خاتون تیسری بار بھی وزیراعظم بنتی اور یقینا کچھ نہ کچھ ایسا کرتی کہ تاریخ اسے یاد رکھتی۔ تاریخ اسے اب بھی یاد رکھے گی۔
وہ ابھی وطن نہ آئی تھی۔ لندن میں ایک خاص میٹنگ میں کہنے لگی کہ پاکستان میں آجکل لکھنے والے اور کالم نگار ہمارے لئے کم کم لکھتے ہیں، اُن سے رابطہ ہونا چاہئے۔ بی بی شہید نے سب سے پہلے میرا نام لیا تو بے ساختہ آصف زرداری نے کہا کہ اجمل نیازی کے ساتھ میں بات کروں گا۔ کیا وہ اب بھی کبھی میرے ساتھ بات کریں گے۔ میں نے زرداری صاحب کے لئے بھی لکھا، جب وہ جیل میں تھے۔ پھر وہ بی بی کی شہادت کے بعد ایوان صدر پہنچ گئے اور اب دبئی چلے گئے ہیں۔ انہی دنوں میں محبوب و محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے آصف زرداری کو ’’مردِحُر‘‘ کہا تھا۔ ’’صدر‘‘ زرداری حریت کی حقیقت نہ سمجھ پائے۔ نظامی صاحب نے یہ خطاب واپس لے لیا۔ اب زرداری صاحب صرف سابق صدر پاکستان اور ایک سیاست دان ہیں۔ البتہ وہ سیاستدان وکھری ٹائپ کے ہیں۔ اللہ نے انہیں موقع دیا تھا۔ جیل میں ایک ملاقات کے دوران خود زرداری صاحب نے مجھے کہا تھا کہ لوگوں نے میرے ساتھ بڑی توقعات باندھ لی ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کو اللہ کیا موقع دینے والا ہے۔ آپ اس لمحے کو یاد رکھیں اور لوگوں کی توقعات پر پورے اتریں۔ وہ بہرحال اپنی توقعات پر پورے اترے۔
برادرم شیخ ریاض کے ٹی وی چینل پر شہید بی بی کے لئے سارا دن پروگرام چلتے رہے۔ ایک منظر میں بلاول کی آواز ابھرتی ہے۔ میں مرنے سے کب ڈرتا ہوں پھر اس کی والدہ بے نظیر بھٹو شہید کی آواز آتی ہے، میں موت کی خاطر زندہ ہوں۔ بلاول بولتا ہے میں باغی ہوں، میں باغی ہوں۔ پھر شہید بی بی بولتی ہے میں باغی ہوں، میں باغی ہوں۔ اسی طرح اس بہت بڑی نظم کے دوسرے مصرے باری باری دونوں بولتے ہیں اور میں عجیب دردناک کیفیت میں ڈوبتا چلا جاتا ہوں۔ بلاول کے لئے میری فکر ایک نامعلوم فکرمندی میںڈھلتی چلی جاتی ہے۔
آصف زرداری نے اپنے بچوں کو اپنے سے پہلے اپنی بیوی بچوں کی ماں کی نسبت دے دی، بلاول بھٹو زرداری… ماں سے نسبت کے کئی لوگ تاریخ میں زندہ ہوئے اور منفرد ہوگئے۔ تاریخ اسلام میں سید ہونا ایک بہت مبارک بات ہے اور سادات کا سلسلہ ماں سے چلا۔ یہ لوگ آقا و مولا رحمت للعالمین محسن انسانیت رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صاحبزادی خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا کی اولاد میں سے ہیں۔ بلاول کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ہے اور بے نظیر بھٹو شہید کا بیٹا ہے۔
نجانے میرا خیال بیٹی مہرالنسا کی شادی کی طرف کیوں جاتا ہے۔ اس کی شادی بھی انہی تاریخوں میں ہوئی ہے۔ ہر جگہ خبروں میں آیا ہے کہ نواز شریف کی نواسی کی شادی ہورہی ہے۔ اس حوالے سے مریم نواز کا نام بھی آتا رہا ہے کہ مریم نواز کی بیٹی کی شادی ہورہی ہے۔ مہرالنسا کے دادا اور باپ کا نام کہیں بھی نہ تھا۔ رائے ونڈ محل میں بڑی سادگی سے شادی ہوئی۔
بھارتی وزیراعظم مودی نے بھی شادی میں شرکت کی۔ کوئی تحفہ بھی دیا۔ یہ تحفہ اچانک تو نہیں دیا گیا ہوگا۔ بھارت سے آنے والا تحفہ افغانستان سے تو نہیں خریدا گیا ہوگا…؟ مجھے تو لگتا ہے کہ مودی جی خاص طور پر مہرالنسا کی شادی میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ ورنہ گھنٹے بھر کی ملاقات تو لاہور ایئرپورٹ پر بھی ہوسکتی تھی۔
بہت مخلص اور باوقار غیر سیاسی جیالے بشیر ریاض نے بی بی شہید کے لئے خوبصورت تحریر لکھی ہے۔ بی بی کا ایک جملہ لکھا ہے جو انہوں نے بشیر صاحب سے کہا تھا: ’’مجھے یقین نہیں ہے کہ میں آزاد ہوں۔‘‘ یہ جملہ گہری قومی بصیرت والی بہادر خاتون ہی کہہ سکتی ہے۔ میں کبھی اس کی تشریح میں کالم لکھوں گا۔ بلاول کے بھی ایک جملے پر غور کریں اور سوچیں ’’میری ماں نے مجھے وطن پر قربان ہونے کا درس دیاہے۔‘‘
میرے سامنے پرانی تصویریں ہیں جب بی بی کو شہید کردیا گیا:
ایک لمحے میں کٹا ہے مدتوں کا فاصلہ
میں ابھی آیا ہوں تصویریں پرانی دیکھ کر
ایک تصویر میں زبردست سیاسی جیالی عظمیٰ بخاری رو رہی ہے۔ وہ اچھی لگی اور پھر غم غلط کرنے کے لئے وہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کے پاس چلی گئی۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے پاس کیوں نہ گئی، اس کا جواب کون دے گا۔ عظمیٰ بخاری، نواز شریف، ’’صدر‘‘ زرداری؟
سنا ہے مریم نواز کی تربیت نواز شریف اسی طرح کررہے ہیں جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کے لئے کی تھی۔ لوگ مریم نواز کے لئے بے جا تنقید کرتے رہتے ہیں، موروثی سیاست کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے، کیا کوئی ایسی بات بھٹو صاحب کے بعد بی بی کے لئے کی جاسکتی ہے۔ وراثت تو فطرت کے دل میں ہے، شرط یہ ہے کہ کوئی اس ورثے کے لئے خود کو ثابت کرے اور ثابت قدم رہے۔