• news
  • image

پاکستان سپر لیگ کے معاملات اور ملکی کرکٹ کے تنازعات!!!!!!

پاکستان سپر لیگ کا خواب حقیقت بننے جا رہا ہے، ہم کئی برس سے ٹونٹی ٹونٹی لیگ کے انعقاد کی کوششیں کر رہے تھے لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔اب بھی نجم سیٹھی یہ گردان کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس لیگ کو ہونے دیں اسے روکیں نہیں۔ حالانکہ پاکستان سپر لیگ کو باہر سے کم اور اندر سے زیادہ خطرہ ہے۔ ایک ٹیم کے مالک کا کہنا ہے کہ عین وقت پر ہمیں بتایا گیا ہے کہ مختلف ممالک کے ٹاپ پلئیرز دستیاب نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے غیر ملکی کھلاڑیوں میں زیادہ بڑے نام نظر نہیں آتے۔نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں کھلاڑیوں کے انتخاب کا عمل مکمل ہوا۔ اس دوران این سی اے میں کروڑوں کا کاروبار ہوا، مختلف فرنچائز مالکان نے بھاری داموں اپنے پسندیدہ کرکٹرز کی خدمات حاصل کیں۔ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ایک عرصے بعد کھیل کی بین الاقوامی سرگرمیاں نظر آئیں۔. میڈیا کے دوست بھی اس موقع پر خاصے پرجوش اور خوش نظر آ رہے تھے۔ پی سی بی میڈیا ڈیپارٹمنٹ سٹاف کی پھرتیاں بھی دیکھنے لائق تھیں، رضا راشد حسب معمول سب کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔دبلے پتلے نذیر کی بھاگ دوڑ انکی بہترین فٹنس کی خبر دے رہی تھی،یوں لگ رہا تھا جیسے نذیر کی فٹنس کو دیکھ کر ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کو احساس ہوتا ہے کہ قومی ٹیم کی فٹنس خراب ہے۔ اس موقع پر وسیم اکرم اور رمیض راجہ کے ساتھ "سیلفیاں" لینے والوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ نجم سیٹھی اور پاکستان سپر لیگ کی ٹیم تو غیر معمولی طور پر خوش دکھائی دے رہی تھی۔ یہاں تک کی کامیابی پر سب کو مبارکباد پیش نا کرنا مناسب نہیں ہے۔ خوش نظر آنے والوں میں ایک نام سلمان سرور بٹ کا بھی تھاوہ اس لیگ کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں ۔ہمارے چند باخبر دوستوں کے مطابق سب سے زیادہ کام بھی سلمان سرور بٹ نے ہی کیا ہے۔ یوں مجموعی طور پر نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں کرکٹ کی رونقیں عروج پر تھیں۔اب اگلا مرحلہ میچز کا ہی ہو گا۔متحدہ عرب امارات میں چار سے تئیس فروری تک جاری رہنے والے اس ایونٹ کے ساتھ پاکستان کرکٹ کا وقار، عزت اور مستقبل جڑا ہے۔ بالخصوص اس لیگ کو کرپشن سے پاک صاف رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔انڈین پریمیر لیگ سمیت تمام بڑی پرائیویٹ 20، 20 لیگز کو سٹہ بازوں ،مافیا اور کرپشن نے داغدار کیا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کو بھی انہی خطرات کا سامنا ہو گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ، پاکستان سپر لیگ کی انتظامیہ کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے، ہماری حقیر معلومات کے مطابق اس اہم کام پر ابھی زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ انڈین پریمیر لیگ میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور آئی پی ایل انتظامیہ کا اپنا بھی ایک اے سی یو کام کر رہا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں کرکٹ کے حلقوں میں یہ بات بھی زیرِ بحث ہے کہ پاکستان سپر لیگ کے لیے مختلف ٹیموں کے کوچنگ سٹاف میں مشکوک افراد اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جن کا ماضی کرپشن کے الزامات کا شکار ہے۔ اس حوالے سے سنجیدہ تحفظات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ بہتر نہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ طاقتور افراد پر مشتمل ایک آزاد اور خودمختار اینٹی کرپشن یونٹ تشکیل دے۔ ایسے طاقتور افراد کی ضرورت ہے جو اس معاملے میں بے رحمانہ احتساب کی طاقت و قوت رکھتے ہوں۔ گگلی ماسٹر عبدالقادر کا کہنا ہے کہ پاکستان سپر لیگ کی گورننگ کونسل کے سربراہ نجم سیٹھی اس ایونٹ کے ذریعے اپنے من پسند افراد کو نواز رہے ہیں۔ عبدالقادر کو ٹیموں کی سلیکشن پر بھی تحفظات ہیں۔ عامر نذیر کہتے ہیں کہ پاکستان سپر لیگ کے لیے صرف وسیم اکرم اور رمیض راجہ کو فرنٹ پر رکھنا درست نہیں ہے۔ محسن حسن خان، عبدالقادر، صادق محمد، جاوید میاں داد اور دیگر لی جنڈز کو بھی ساتھ کھڑا کرنا چاہیے۔ عامر کا مزید کہنا ہے کہ پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں ہونی چاہیے تاکہ پاکستان کا عام آدمی بھی سپر لیگ کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو سکے۔پاکستان سپر لیگ کے حوالے سے اب تک ہونے والا پیپر ورک اسے کھلاڑیوں کی فروخت کے مرحلے تک لے آیا ہے۔تاہم اصل کام ابھی باقی ہے۔ اصل مسائل 4 فروری 2016 سے سامنے آ سکتے ہیں۔ہمیں ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کیونکہ اس لیگ کے ساتھ پاکستان کرکٹ کی عزت اور ساکھ جڑی ہے اور تو اور کروڑوں روپیہ خرچ ہو چکا ہے۔ لگ بھگ 80 کروڑ یا اس سے بھی زائد پی ایس ایل کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔پی ایس ایل کو تنازعات سے بچانے کے لیے کیا یہ بہتر نہیں کہ انتظامیہ سپر لیگ کے بجٹ کو عام کردے۔بہرحال ہم آئندہ پاکستان سپر لیگ کے بجٹ کے حوالے سے اہم معلومات قارئین تک پہنچائیں گے۔ اب تربیتی کیمپ کو دیکھتے ہیں؛ محمد عامر کی کیمپ میں شمولیت پر اظہر علی اور محمد حفیظ نے اعتراض کیا، مصباح الحق نے انہیں سپورٹ کیا۔کرکٹ بورڈ عامر کو کھلانا چاہتا ہے۔ حفیظ نے پہلے بھی اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اظہر علی کے لیے بہتر یہی تھا کہ وہ بحیثیت کپتان میڈیا میں آنے کے بجائے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے ساتھ پہلے سے بات چیت کرتے۔ بعد میں بھی انہوں نے بات چیت کے ذریعے ہی معاملات طے کئے ہیں۔ یہ کام کیمپ چھوڑنے سے پہلے کر لیا جاتا تو زیادہ مناسب تھا۔ دوسری طرف یاسر شاہ کا ڈوپ ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ یوں سعید اجمل کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کا ایک اور میچ جیتنے والا ہونہار کرکٹر مصیبت میں مبتلا ہوا ہے۔مسلسل تنازعات کے ساتھ پاکستان کی کرکٹ نئے سال میں داخل ہو رہی ہے دیکھنا یہ ہے کہ سال کی پہلی سیریز میں نتائج نئے سال کا تحفہ ثابت ہوتے ہیں؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن