• news

وسط جنوری میں پاکستان، بھارت10 نکاتی مذاکرات ہونگے، 6 ماہ کا شیڈول طے کیا جائے گا: مشیر خارجہ

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ نیوز ایجنسیاں) وزیراعظم کے مشیر خارجہ سینیٹر سرتاج عزیز نے کہا ہے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورے کے دوران ویزے کے اجرا سے متعلق قیاس آرائیاں غلط ہیں، تمام قانونی تقاضے پورے کئے، ہماری 30 دن کی بھرپور سفارتکاری کے نتیجے میں جامع مذاکرات کا عمل بحال ہو رہا ہے، پاکستان بھارت سیکرٹری خارجہ مذاکرات آئندہ ماہ جنوری میں ہونگے، مختلف مسائل پر بات چیت ہوگی اور آئندہ 6 ماہ کا شیڈول طے کیا جائیگا، پارلیمنٹ سے کوئی چیز مخفی نہیں رکھی جا رہی، آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ افغانستان سے متعلق وزارت دفاع بتا سکتی ہے۔ سینٹ میں نریندر مودی کے دورے کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے مشیر خارجہ نے کہا 25 دسمبر کو بھارتی وزیراعظم نے نواز شریف کو ٹیلی فون کیا اور ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی جس پر وزیراعظم نے انہیں بتایا وہ لاہور میں موجود ہیں جس کے بعد بھارتی وزیر اعظم شام سوا 4 بجے لاہور پہنچے، دونوں رہنمائوں کی ملاقات غیر رسمی اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت ہوئی جس کا مقصد صورتحال میں موجودہ پیش رفت کو مزید بہتر بنانا تھا۔ ملاقات میں دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریوں کی 14 یا 15 جنوری کو ملاقات کی بھی تصدیق ہوئی۔ بھارت میں چند حلقوں نے اس ملاقات پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا تاہم مجموعی طور پر اس کا خیرمقدم کیا گیا۔ انہوں نے بتایا ایئرپورٹ پر وزیراعظم مودی اور ان کے وفد کے گیارہ ارکان کو 72 گھنٹے کا ویزہ جاری کیا گیا، باقی سو افراد ایئرپورٹ سے باہر نہیں نکلے جس کی وجہ سے ان کیلئے امیگریشن کے تقاضے پورے کرنا ضروری نہیں تھے۔ دونوں وزرائے اعظم کی اب تک پانچ ملاقاتیں ہو چکی ہیں، رہنما تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو اس کے مذاکرات کے آئندہ عمل پر بھی خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مشیر خارجہ نے کہا دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹری امن و سلامتی‘ جموں و کشمیر‘ سرکریک‘ انسداد دہشتگردی‘ انسداد منشیات سمیت دس نکاتی ایجنڈے پر تبادلہ خیال کریں گے۔ مذاکرات کے عمل میں مشکل فیصلے ہونے ہیں‘ ہمیں غیر حقیقی توقعات نہیں رکھنی چاہئیں‘ جنوری کے وسط میں دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات میں آئندہ چھ ماہ کا شیڈول طے پا جائے گا اس میں کچھ امور پر جلدی پیش رفت ہوگی اور کچھ میں وقت بھی لگ سکتا ہے۔ پاکستان نے جموں کشمیر پر مضبوط موقف اختیار کیا ہے۔ جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نے پاکستان کا موقف پیش کیا جس کی وجہ سے بھارت اپنے مخاصمانہ رویئے سے پیچھے ہٹا۔ مودی کا دورہ عالمی دبائو کا نتیجہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں پیشرفت ہو رہی ہے۔ خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات میں ایجنڈا طے پا جائے اس سے بہت سی چیزیں واضح ہو جائیں گی۔ صباح نیوز کے مطابق اپوزیشن کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے سینٹ میں بھارتی وزیراعظم کے دورہ پاکستان کا خیر مقدم کرتے ہوئے دونوں وزرائے اعظم کی بات چیت سے آگاہ کرنے کے لئے ان کیمرہ اجلاس کی تجویز دی۔ قائد حزب اختلاف سینٹر اعتراز احسن نے واضح کیا آدھا سچ اس ایوان میں نہیں آنا چاہئے، ہم پاکستان بھارت مذاکرات کو سبوتاژ نہیں کرنا چاہتے، چاہتے ہیں پارلیمنٹ کو اس بارے اعتماد میں لیا جائے۔ انہوں نے حکومت کو پاکستان بھارت مذاکرات کی کامیابی کے لئے اپوزیشن کی جانب سے غیر مشروط تعاون کی یقین دہانی کرائی اور کہا ضروری ہے پارلیمنٹ کو ساتھ لے کر چلیں۔ ارکان کو معلوم ہونا چاہئے بھارت اور افغانستان کے ساتھ کیا معاملات طے پا رہے ہیں۔ ہم ان رابطوں کی حمایت کرتے ہیں۔ آن لائن کے مطابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی جانب سے بھارتی وزیراعظم کے دورہ لاہور اور پاکستان کے آرمی چیف کے دورہ کابل کے بارے میں پالیسی بیان کو مسترد کر دیا۔ سرتاج عزیز کی جانب سے دئیے جانے والے پالیسی بیان کو اپوزیشن جماعتوں نے مکمل طور پر مسترد کردیا جس پر چیئرمین سینٹ نے کہا ایوان بالا کو پریس ریلیز نہ دی جائے اور دونوں دوروں سے متعلق اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے چیئرمین سینٹ سے جمعرات کے روز آرمی چیف کے دورہ کابل کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دینے کی مہلت طلب کی۔ چیئرمین سینٹ نے تفصیلی بریفنگ کی اجازت دیتے ہوئے پوچھا وزیر دفاع چاہیں تو اِن کیمرہ بریفنگ کا انتظام بھی ہوسکتا ہے تاہم وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا اگرچہ اس کی ضرورت تو نہیں تاہم اس سلسلے میں سیکرٹری سینٹ کو آگاہ کردیا جائیگا۔ آئی این پی کے مطابق مشیر خارجہ بھارتی وزیراعظم کی آمد پر بریفنگ دے رہے تھے تو اپوزیشن کی جانب سے انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس سے تنگ آ کر مشیر خارجہ نے کہاکہ ارکان اور کیا جاننا چاہتے ہیں، جو باتیں تھیں وہ بتا دی ہیں جس پر چیئرمین سینٹ نے نوٹس لیتے ہوئے مشیر خارجہ سے کہا کہ وہ اپنے الفاظ واپس لیں جس پر مشیر خارجہ نے تکرار کے بعد اپنے الفاظ واپس لے لئے۔ سٹاف رپورٹر کے مطابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی وزراء کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کرتے رہے۔ آرمی چیف کے حالیہ دورہ کابل جیسے اہم امور پر باہمی رابطے نہ ہونے کی وجہ سے وزراء خود بھی چیئرمین کو سرزنش کرنے اور معاندانہ رویہ اختیار کرنے کے مواقع فراہم کرتے رہے۔ ایوان کی جانب سے مطالبہ آیا آرمی چیف کے حالیہ دورہ کابل کے بارے میں بتایا جائے لیکن سرتاج عزیز کا جواب تھا یہ دفاع سے متعلق معاملہ ہے اور آئی ایس پی آر اس پر بیان بھی جاری کر چکا ہے۔ چیئرمین رضا ربانی نے کہا ایوان کو اخباری تراشوں کی نہیں بلکہ آپ کے بیان کی ضرورت ہے کیونکہ یہ آپ سے متعلق معاملہ ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف ایوان میں موجود تھے۔ ان کی اس یقین دہانی پر یہ معاملہ نمٹ گیا کہ وہ کل اس موضوع پر ایوان کو تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔ پیپلز پارٹی کی سسی پلیجو، سعید غنی اور عبدالرحمن ملک کا کہنا تھا معاملات اتنے سادہ نہیں جتنے سرتاج عزیز نے بیان کئے ہیں۔ اپوزیشن ارکان نے ٹیکسوں میں حالیہ اضافہ پر بحث کے دوران حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ طاہر مشہدی، ہمایوں سیف اللہ ، اعظم سواری، تاج حیدر، عثمان کاکڑ، سعید غنی اور دیگر نے کہا منی بجٹ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ قانون سازی کی جائے بجٹ کے بعد کوئی منی بجٹ نہیں ہونا چاہئے۔ نئے ٹیکسوں پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا نئے ٹیکسز واپس لئے جائیں۔ وفاقی وزیرزاہد حامد نے بحث سمیٹے ہوئے کہا پرتعیش اشیا پر ٹیکس لگایا گیا جو لوگ یہ اشیا سمگل نہیں کرتے ان پر ٹیکس نہیں لگائے گئے۔ انہوں نے کہا اکتوبر، نومبر میں ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوا ہے۔ مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آن لائن کے مطابق انہوں نے کہا مستقبل میں کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا۔ بعدازاں سینٹ کا اجلاس دوپہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ آئی این پی کے مطابق سینٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی میں ارکان اور ماہرین نے مختلف تجاویز دیتے ہوئے کہا ایف سی آر کوختم کر کے فاٹا کے بارے میں قانون سازی کے لئے آئین کے آرٹیکل 247 میں ترمیم کی جائے، فاٹا کے سٹیٹس کا تعین بھی ضروری ہے، فاٹا کے لوگوں پرکوئی بھی چیز زبردستی مسلط کرنے کے بجائے ان کو مشاورتی عمل میں شامل کیا جائے، آئی ڈی پیز کی مشکلات کم کرنے کیلئے موثر نظام بنانے کی ضرورت ہے۔ جبکہ وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا فاٹا اصلاحات کے حوالہ سے پشاور میں گرینڈ جرگہ ہو گا جس کی سفارشات دونوں ایوانوں میں پیش کی جائیں گی۔ چیئرمین رضا ربانی نے کہا حکومتی کمیٹی اپنا کام کرے پارلیمان کی کمیٹی اپنا کام کرے گی۔ این این آئی کے مطابق سینٹ کو بتایا گیا افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں‘ دوطرفہ تجارت بڑھی ہے‘ سرحد پر داخلی مقام پر بائیومیٹرک سسٹم نصب کیا جائیگا۔ آئی این پی کے مطابق حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے 61 درآمدی اشیاء پر 10 فیصد اور 289 اشیاء پر 5 فیصد اضافی درآمدی ڈیوٹی عائد کرنے کے حکومتی فیصلے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا حکومت یہ ظالمانہ فیصلہ واپس لے، ماورائے پارلیمنٹ ٹیکس نافذ کرنے کے فیصلے پارلیمنٹ کے اختیارات سلب کرنے اور حکومتی اختیارات سے تجاوز کے مترادف ہے، اگر حکومت باز نہ آئی تو بجٹ کے بعد ٹیکسوں میں اضافے کا حکومتی اختیار ختم کرنے کے لئے قانونی سازی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن