2015ء لوڈشیڈنگ کا عذاب کم ہوا نہ متبادل توانائی کا منصوبہ آیا
لاہور (ندیم بسرا) 2015ء میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب شہریوں پر سوار رہا۔ حکومت کی طرف سے پانی و بجلی اور متبادل توانائی کے بڑے منصوبے سامنے نہ آ سکے۔ تاہم واپڈا کی طرف سے جاری بڑے اور درمیانی بجلی کی پیداوار کے منصوبے جون 2017ء تک مکمل ہو سکیں گے۔ بتایا گیا ہے نیشنل گرڈ میں کوئی خاطرخواہ بجلی شامل نہ ہو سکی۔ نندی پور، قائداعظم سولر پارک میں بجلی پیدا کی گئی مگر مسلسل پیداوار نیشنل گرڈ میں نہ ہو سکی۔ حکومت کی طرف سے بجلی کے منصوبوں میں بار بار ردوبدل سے کوئی بڑا منصوبہ مکمل ہوا اور نہ ہی شروع ہو سکا۔ حکومت کی طرف سے سولر، بائیو گیس، کول پراجیکٹ پر کام نہ ہو سکا۔ جس کے نتیجے میں بجلی کی مانگ میں کمی نہ ہوئی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 10سے 12گھنٹے تک رہا مگر پنجاب کی تقسیم کار کمپنیوں نے شہروں میں بہتر لوڈ مینجمنٹ سے بجلی کی لوڈشیڈنگ بیلنس ہو سکی۔ بجلی کی ڈیمانڈ 18 ہزار 950میگاواٹ سے تجاوز کر گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے ملک بھر میں 8 لاکھ سے زائدائرکنڈیشنر اور 14لاکھ یو پی ایس بھی سسٹم میں شامل ہوئے۔ بجلی کی جنریشن 12 ہزار 450میگاواٹ تک ہی رہی۔ مزید یہ بھی بتایا گیا وزارت پانی و بجلی 2018ء تک بجلی کی ڈیمانڈ پوری نہیں کر سکے گی۔ 2016ء اور 2017ء میں شہریوں کو لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ واپڈا ذرائع کا کہنا ہے 2015ء میں واپڈا (پانی و بجلی) کا کوئی منصوبہ مکمل نہ ہوا۔ 2015ء میں واپڈا نے اپنے ذرائع سے 6900میگاواٹ بجلی حاصل کی۔ مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں واپڈا کی طرف سے خوشخبری بتائی گئی ہے کہ 2017ء میں 2475میگاواٹ بجلی شامل ہو جائے گی جس میں 969میگاواٹ نیلم، جہلم، تربیلا ڈیم کا چوتھا توسیعی منصوبہ 1410میگاواٹ اور 106میگاواٹ کا گولن کول منصوبہ شامل ہے۔ اس کے ساتھ بلوچستان میں زمین کو پانی کی سیرابی کیلئے کھچی کینال فیز ون، ٹیج اے 2016ء میں مکمل ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ 2160 میگاواٹ کا داسو ہائیڈرو پراجیکٹ کی تعمیر کیلئے کنسٹرکشن کمپنیوں نے اظہار دلچسپی ظاہر کی ہے جبکہ 4500 میگاواٹ دیامر بھاشا ڈیم کیلئے زمین حاصل کرنے کا کام جنوری 2016ء میں شروع ہو جائے گا۔