• news

2015ئ: معاشی شعبوں میں نمایاں پیشرفت‘ ایچ ای سی کی نجکاری نہ ہو سکی

اسلام آباد (عترت جعفری) 2015ء میں پاکستان نے معاشی شعبوں میں نمایاں پیشرفت کی‘ زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر سے زائد ہو گئے‘ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام بغیر کسی دشواری کے جاری رہا اور اب یہ اشارے بھی نظر آ رہے ہیں کہ ممکنہ طورپر ملک آئی ایم ایف کے پروگرام کو خیرباد کہہ دے‘ بجلی کی فراہمی کی صورتحال میں بہتری آئی‘ ایگزم بینک جیسے ضروری اداروں کے قیام کی جانب پیشرفت کی گئی‘ دہشت گردی اور بلیک منی کی روک تھام کے لئے ریگولیٹری فریم ورک کو سخت بنا دیا گیا‘ ترسیلات کی گروتھ حوصلہ افزاء رہی جبکہ ایف بی آر ریونیو میں بھی اضافہ ہوا تاہم ان تمام خوشگوار کامیابیوں کے باوجود بعض تلخ حقائق اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ بجٹ سازی کے اعلان کے وقت معیشت کی درستگی کے لئے جن نمایاں اقدامات کا ذکر کیا گیا تھا ان کو رول بیک کرنے کا سلسلہ بھی کسی نہ کسی جواز کی آڑ میں جاری رہا۔ آج جب کیلنڈر سال ختم ہو رہا ہے تو حکومت کالے دھن کو سفید کرنے کی ایک سکیم لانے کی پوری تیاری کر چکی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اب سے اڑھائی سال قبل سابق حکومت نے ایسی سکیم لانے کی کوشش کی تھی تاہم اسحاق ڈار نے اس کی شدید مخالفت کی تھی لیکن اب یہ سکیم آ رہی ہے۔ نجکاری پروگرام صرف اس وقت تک کامیابی سے چلا جب تک کاروباری طورپر مضبوط اداروں کے شیئرز فروخت کئے جاتے رہے۔ حکومت کا پہلا امتحان ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کی نجکاری کرنے کے معاملہ پر سامنے آیا تھا‘ یہ نجکاری نہ ہو سکی۔ بہترین ماہرین کی ٹیم کے باوجود نجکاری کمیشن ’’خریدار‘‘ کی مالی حیثیت کی جانچ نہیں کر سکا‘ دوسرا امتحان پی آئی اے کی نجکاری کی جانب پیشرفت کے ضمن میں ہوا۔ آئی ایم ایف پروگرام کو کامیابی سے چلانے کے لئے پی آئی اے کی فروخت کا عمل آگے بڑھانا ضروری ہے تاہم اپوزیشن کی سخت مخالفت اور پی آئی اے کے ملازمین کے ردعمل کے خوف سے گومگو کی کیفیت نظر آئی۔ پاکستان بیت المال‘ انکم سپورٹ پروگرام چل رہے ہیں لیکن کسی کے پاس غربت کے قابل بھروسہ اعداد و شمار موجود نہیں‘ درست اعداد و شمار نہ ہونے کے باعث حکومتی اقدامات کے نچلی سطح تک ثمرات کو جانچنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ’’پاکستان چین اقتصادی راہداری‘‘ کا منصوبہ ملک کے ساتھ خطے کی حالت بدل سکتا ہے تاہم اب تک روٹس کے تنازعات پر چھوٹے صوبوں کے تحفظات کو دور نہیں کیا جا سکا۔ مغربی روٹ کے مقابلہ میں وسطی روٹ کے جن منصوبوں کی منظوری کے اعلانات سامنے آئے ان کے لئے وقف مالی وسائل کا حجم حیران کن طورپر بہت زیادہ ہے۔ 2016ء میں لگتا ہے کہ حکومت اپنے ترقیاتی اخراجات بڑھانا چاہتی ہے جبکہ نجکاری پروگرام پر آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شیڈول پر عمل بھی دشوار لگ رہا ہے۔ حکومت کے لئے نجکاری ناممکن نہیں تو ناہموار راستہ ضرور ثابت ہو گی۔ بجلی کی قلت کو دور کرنے کے لئے حکومت کا عزم نظر آیا۔ 2015ء میں ایف بی آر کی نااہلی گزشتہ سال کے مقابلہ میں ریونیو گروتھ میں اضافہ کے گرد میں چھپی رہی۔ ایف بی آر ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ جولائی تا دسمبر منی بجٹ لائے جاتے رہے اور کیلنڈر سال کا آخری جھٹکا 40 ارب کے نئے ٹیکس عائد کر کے دیا گیا۔ 2015ء میں مہنگائی میں اضافہ کی روک تھام ہوئی۔ تیل کی عالمی قیمت کم ہونے کا فائدہ عوام تک پہنچایا گیا۔

ای پیپر-دی نیشن