مصطفیٰ کانجو کے گارڈ کی قمیص پر زین کا خون لگا تھا، ڈی این اے رپورٹ پیش
لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے یتیم طالبعلم زین قتل کیس کے ملزموں کی بریت کے خلاف حکومت پنجاب کی اپیل سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے ملزم مصطفی کانجو اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل ڈویژن بنچ نے سماعت کی۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب عدالت کو بتایا کہ ٹرائل عدالت نے مدعی مقدمہ اور گواہوں کے منحرف ہونے کے بعد پراسیکیوشن کے گواہوں پر جرح کئے بغیر زین قتل کیس کا فیصلہ سنایا۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے ملزم مصطفی کانجوکے سکیورٹی گارڈ آصف الرحمن کی قیمض سے حاصل خون کے دھبوں کے نمونے کی ڈی این اے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ڈی این اے رپورٹ میں خون کے دھبے میچ کر گئے ہیں، ٹرائل عدالت نے سائنسی اور واقعاتی شہادتوں کو نظر انداز کیا اور 27 اکتوبر کو گواہوں اور مدعی مقدمہ کے منحرف ہونے کو بنیاد بنا کر انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مصطفی کانجو اور اسکے چار سکیورٹی گارڈز کوباعزت بری کر دیا تھا۔ فیصلہ سنانے کے دو ماہ بعد 23 دسمبر کو ڈی این اے رپورٹ تیار ہوئی۔ ملزموں کو بری کرنے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد زین قتل کیس کے ملزموں کی باعزت بریت کے دو ماہ بعد مقدمہ نیا رُخ اختیار کر گیا۔ مصطفی کانجو کے سکیورٹی گارڈ کے کپڑوں پر لگے خون کے دھبوں کی ڈی این اے رپورٹ خون کی تصدیق کر دی ہے۔ قتل کے بعد سکیورٹی گارڈ نے زین کو اٹھا کر مصطفی کانجو کی گاڑی میں ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے زین کا خون رستے ہوئے سکیورٹی گارڈ آصف الرحمن کی قمیض سے لگ گیا تھا۔