حکومتی دعوے دھرے رہ گئے، 2015 ء گزر گیا، خواتین کے مسائل حل نہ ہو سکے
لاہور (رفیعہ ناہید اکرام) خواتین کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کے حکومتی دعوؤںکے باوجود 2015ء میں بھی حوا کی بیٹی مسائل کی بھٹی میں جلتی اور نامساعد حالات سے نبردآزما رہی۔ پنجاب اسمبلی میں خواتین ارکان کی ریکارڈ تعدادکے باوجود گھریلو تشدد کا بل اس سال بھی پیش نہ کیا جا سکا۔ عورتوںکی ترقی کی صوبائی وزیر حمیدہ وحیدالدین ویمن ایمپاورمنٹ کا نعرہ بلندکرتی رہیں۔ چائلڈ میرج کیخلاف قانون موجود ہونے کے باوجود اسے بچایا نہ جاسکا۔ بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں خوفناک اضافہ ہوا، پنجاب میں روزانہ 8سے 10بچیاں جنسی تشدد کا شکار ہوتی رہیں اور مجرم دندناتے رہے۔ پنجاب میں سال 2015ء کے دوران تشددکے9000 سے زائد واقعات پیش آئے ، اغواء کے 1990، قتل کے1000، اقدام قتل 148، اجتماعی زیادتی کے846 ، خودکشی کے 563، خودکشی کی کوشش کے 398،غیرت کے نام پر قتل320 واقعات پیش آئے۔ ہزاروں خواتین مختلف شیلٹر ہومز، ہسپتالوں، جیلوں اور ذہنی امراض کی علاج گاہوںمیں انتہائی بے بسی میں زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور رہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں بہت کم خواتین کوبراہ راست الیکشن کا موقع دیا گیا جبکہ مخصوص نشستوں پر بھی خواتین کو33 فیصد نمائندگی نہیں دی گئی۔ پنجاب اسمبلی ویمن پارلیمنٹری کاکس کے پاس عام عورت کیلئے کچھ کرنے کے اختیارات نہیں۔ پنجاب ویمن کمیشن کی 70 فیصد اسامیاںخالی ہیں جبکہ کمیشن کو بجٹ کے حصول میں بھی شدید مشکلات کاسامنا رہا جبکہ ویمن کرائسز سنٹرخود بحران کا شکار رہا۔ بین الاقوامی معاہدوں پر اس سال بھی عملدرآمد ہوسکا اور نہ ہی امریکہ میں بے گناہ قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن واپس نہ لایا جا سکا۔