• news
  • image

پگڑی دوپٹہ اور چرواہے کا کردار

بیرون ملک مقیم ایک کالم نگار نے شریف فیملی کی روایتی پگڑی کا ذکر کیا ہے۔ وہ اپنی نواسی مریم نواز کی بیٹی مہر النساء کی شادی پر سرخ رنگ کی پگڑی پہنے ہوئے تھے۔ پگڑی انہیں اچھی لگی۔ انہیں شلوار قمیص بھی اچھی لگتی ہے وہ خواہ مخواہ پینٹ کوٹ پہن لیتے ہیں۔ نیلے رنگ کا یہ لباس نواز شریف کلر کی حیثیت سے مشہور ہو گیا تھا۔ میں کسی خاص لباس میں یقین نہیں رکھتا مگر لباس وہ جو اچھا لگے۔ کتنی گہری بات میرے آقا و مولا رسول کریم حضرت محمدؐ نے کی۔ عورت اور مرد (میاں بیوی) ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ اس کی تشریح میں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ شہباز شریف ہمیشہ سوٹ میں ہوتے ہیں۔ انہیں کبھی شلوار قمیص میں نہیں دیکھا۔ اُن سے کبھی شلوار قمیص کی فرمائش نہیں کی۔ 

کئی موقعوں پر مقامی کلچر کے مطابق حکمرانوں کو پگڑی پہنائی جاتی ہے۔ اسے سیاسی پگڑی کہا جا سکتا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی ایک دن پگڑی کے ساتھ تقریر کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ وردی کے اوپر پگڑی بڑا مزا دے رہی تھی۔ میرا سوہنا ابا ہمیشہ پگڑی پہنتا تھا۔ انہیں کبھی گھر سے باہر نکلتے ہوئے پگڑی کے بغیر نہیں دیکھا گیا تھا۔ وہ سفید پگڑی پہنتے تھے۔ میانوالی میں سفید پگڑی کا راواج ہے اب تو یہ رواج بھی نہیں رہا۔ نواب آف کالاباغ گورنر مغربی پاکستان بھی سفید پگڑی پہنتے تھے۔ مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی مختلف رنگوں سے سجی پگڑی باندھتے تھے اور طرہ بھی رکھتے تھے۔ مجھ سے کسی نے کہا کہ تم طرہ کیوں نہیں رکھتے؟ میں نے کہا کہ میرے پاس کوئی طرئہ امتیاز نہیں ہے۔
ہم بیٹی مہر النساء کی شادی میں گئے ہوتے نواز شریف کو پگڑی کے ساتھ دیکھتے۔ یہ شادی جاتی عمرہ میں ہوئی۔ مہر النساء اپنے بابل کے گھر سے پیا گھر نہ گئی بلکہ اپنے نانا بلکہ وزیراعظم کے گھر سے وداع ہوئی۔ صرف ایک تصویر میں اس کے والد کیپٹن صفدر نظر آئے اس تصویر میں بھی نمایاں صرف مریم نواز تھی مہر النساء بھی دلہن کے روپ میں اتنی اہم نظر نہیں آرہی تھی۔
بیٹی مہر النساء کی شادی کے ذکر میں اچھا تو نہیں لگتا مگر ایک لڑکی جو دلہن بننے سے پہلے ہی اجتماعی زیادتی کا شکار ہو گئی۔ درندے گرفتار تو ہو گئے مگر انہیں فوری طور پر عبرت کا نشانہ بنا دیا جائے تو آئندہ کوئی سوچ سمجھ کر جرأت کرے گا۔ اس کے لئے جو دین فطرت میں سزا ہے۔ اس کی اہمیت آشکار ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو سنگسار کیا جائے۔ انہیں پتھر مار مار کر موت کی نیند سلا دیا جائے۔ سارا شہر انہیں پتھر مارے۔
اس ضمن میں جو مرکزی درندہ عدنان ثناء اللہ ہے اس کا تعلق وزیر تعلیم رانا مشہود سے۔ بتایا گیا ہے کوئی منچلا کہہ رہا تھا کہ اس کا تعلق تو رانا ثناء اللہ سے ہونا چاہیے تھا مگر ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ رانا ثناء اللہ کے لئے اس سلسلے میں کوئی شکایت کبھی سننے میں نہیں آئی۔ وہ جب اپوزیشن میں تھے تو اُن کے ساتھ بڑا رابطہ تھا مگر اب وہ وزیر ہو گئے ہیں۔ ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی مگر اُن کا چرچا میڈیا میں بہت ہے۔
بہرحال رانا مشہورد رانا صاحب تو ہیں۔ معلوم کرنا چاہئے کہ عدنان بھی رانا نہ ہو، رانا مشہود اس حوالے سے وضاحت کریں۔ اُن کی تصویریں عدنان کے ساتھ شائع ہوئی ہیں۔ یہ وہ تصویریں نہیں ہیں۔جو کسی تقریب کے موقعے پر لوگ زبردستی کھنچوا لیتے ہیں۔ یہ خاص طور پر دوستانہ ماحول میں بنائی ہوئی تصویریں ہیں۔ میڈیا والے بڑے چالاک میں۔ نجانے کہاں کہاں سے معلومات اکٹھی کر لیتے ہیں۔
ایم پی اے برادرم خواجہ عمران نذیر نے وضاحت کی ہے کہ عدنان ثنا اللہ کا تعلق مسلم لیگ ن سے نہیں ہے۔ خواجہ صاحب مسلم لیگ سے بڑی وابستگی رکھتے ہیں۔ انہیں عدنان کی درندگی سے دکھ ہوا ہو گا۔ مگر وہ تحقیق تو کریں کہ عدنان کا تعلق مسلم لیگ ن سے نہیں ہو گا مگر رانا مشہود سے کیا تعلق ہے؟ وہ یہ بھی اہتمام کریں کہ درندوں کو قرار واقعی سزا ملے۔ شہباز شریف نے اس سلسلے میں سخت احکامات جاری کئے ہیں۔
اخبارات میں سب کچھ ہونے کے باوجود اور مختلف ایڈیشن اور میگزین شائع ہونے کے بعد ہفت روزہ اور ماہنامہ صحافت کا ماحول نہیں بن رہا۔ پھر بھی چند ایک رسالے شائع ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد علمی و ادبی رسائل کی ہے۔
ایک مسیحی دوست حبیب صدیق بھٹی نے ایک ماہنامہ شائع کیا ہے۔ جس کا نام ’’چوپان‘‘ ہے۔ چوپان غالباً چرواوے کو کہتے ہیں۔ اور چروہا لیڈر کو بھی کہتے ہیں۔ ایک نمائندہ مسیحی ہفت روزہ ’’شاداب‘‘ کے نام سے ممتاز شاعر کنول فیروز برسوں سے شائع کرتے ہیں۔ اس میں کوئی اشتہار نہیں ہوتا۔ اشتہار تو چوپان میں بھی خاص طور پر نظر نہیں آیا۔ یہ بات گہری لگن کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ ’’چوپان‘‘ ایک مختصر سا میگزین ہے مگر اسے پڑھتے ہوئے کسی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ معروف شاعر اور سماجی شخصیت ایڈووکیٹ سید محمود الحسن گیلانی کی غزلوں نے اور معروف شاعرہ کہکشاں بھٹی کی نظموں نے بہت متاثر کیا ہے۔ دونوں جگہ دیئے (چراغ) کا ذکر ہے گیلانی صاحب کہتے ہیں۔
اک دیے کو میں ہتھیلی پر لئے پھرتا ہوں دوست
اک دیا بے تاب ہے سینے میں جلنے کے لئے
کہکشاں بھٹی کی خوبصورت نظم دیکھئے۔ ’’کھوج‘‘
بعد مدت کے وہ لوٹا
نجانے کیا کھوجنے مجھ میں
کہ میں وہ عام سی اک لڑکی ہوں
مجھے مہرو ماہ کی چاہ نہیں
اک دیا ہے کافی
لو کے لئے

epaper

ای پیپر-دی نیشن