• news
  • image

پہل کس نے کی تھی؟

جو کچھ اسلامی نظریاتی کونسل میں ہوا۔ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تقریباً ہر روز ہوتا رہتا ہے۔ مولوی صاحبان آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ مولوی کا مطلب ہے اللہ والا۔ تو یہ لفظ کیوں نیگٹو ہو گیا ہے؟ اس پر غور کرنے کا وقت ہمارے پاس نہیں ہے۔ مُلا کا لفظ تو ہمیں شاید بھول ہی گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مناظرے ہوتے تھے۔ مناظرے مقابلے میں بدل جاتے۔ بڑا تماشا لگتا تھا۔

ہم نے مولوی فرید احمد کو بھی دیکھا اور سنا ہے وہ قومی اسمبلی کے ممبر تھے۔ بڑے باوقار اور خوشگوار آدمی تھے۔ مگر اب ہر داڑھی والے کو مولوی سمجھ لیا جاتا ہے۔ ان دنوں میں مولویانہ جھگڑے کم کم ہیں مگر اسلامی نظریاتی کونسل میں چیئرمین مولوی محمد خان شیرانی اور حافظ طاہر اشرفی کے درمیان ہاتھا پائی کا ایک بڑا خطرناک واقعہ یا جھگڑا ہوا۔ حافظ اشرفی صاحب تو سیاست سے بھی کچھ کچھ تعلق رکھتے ہیں۔ میرے ساتھ ان کی صاحب سلامت ہے۔ ان سے بالکل ڈر نہیں لگتا جو عام طور بڑے سنجیدہ مولوی صاحبان یا مولانا صاحبان سے لگتا ہے۔ نجانے کس وقت کون سی بات انہیں ناپسند آ جائے اور فوراً غیر اسلامی کا فتویٰ لگا دیں۔ طاہر اشرفی فتویٰ اور تقویٰ کا رعب نہیں جماتے۔ وہ ان دونوں کے ساتھ اتنا ہی تعلق رکھتے ہیں جو ہم رکھتے ہیں۔
ہر بات میں اسلامی اور غیر اسلامی کی بحث و تمحیص بہت تکلیف دہ ہے۔ اس میں یہ بھی تخصیص اور تمیز نہیں ہے کہ کون یہ فیصلہ کر سکتا ہے کیا غیر اسلامی ہے اور کیا کچھ اسلامی ہے۔
میں مولانا شیرانی سے واقف نہیں ہوں۔ اتنا جانتا ہوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں چیئرمین کے طور پر ان کی تعیناتی جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی بارگیننگ کے نتیجے میں کی گئی تھی۔ مولانا فضل الرحمن محترم مفتی محمود کے بیٹے ہیں۔ وہ صوبہ سرحد (کے پی کے) کے وزیر اعلیٰ تھے اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی تھے۔ مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے اور صوبہ خیبر پختون خوا میں انہوں نے اپنے ایک سیاسی مرید کو وزیر اعلیٰ بنوایا تھا۔ اب وہ خود کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور کبھی مسئلہ کشمیر کا ذکر بھی نہیں کیا۔
مولانا خان محمد شیرانی کا تقرر بھی سیاسی نوعیت کا ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی نوعیت بھی سیاسی ہو چکی ہے۔ کچھ نہ کچھ کونسل میں اب تک ہوا ہو گا مگر کچھ خاص نہیں ہوا جو قابل ذکر ہو۔ اسے آپ زیادہ سے زیادہ مرکزی وفاقی یونین کونسل کہہ سکتے ہیں۔ جہاں لوگ منتخب ہو کے نہیں آتے نامزد کئے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں منتخب اور نامزد لوگوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
ہمیں حافظ طاہر اشرفی کی پریس بریفنگ سے اندازہ ہوا کہ مسئلہ بہت گھمبیر اور خطرناک تھا اچھا ہوا کہ اشرفی صاحب نے اس معاملے کو زیر بحث نہ آنے دیا۔ ورنہ اس ملک میں یہ مسئلہ پھر ایک المیہ بن جاتا اس میں افراتفری اور بدامنی کا بھی خطرہ ہو سکتا تھا ایک معاملہ طے ہو چکا ہے اسے دوبارہ چھیڑنے کا کیا فائدہ ہے۔ اس کیلئے ایسے فورم کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی جو بہت اہم اور نظریاتی سمجھا جاتا ہے۔ صرف ایک نقطہ بیان کر دینا کافی ہے۔
قادیانی کافر ہیں مرتد ہیں یا گمراہ ہیں؟
سینئر کالم نگار نذیر ناجی کہتے ہیں۔ ’’شیرانی صاحب اپنی غلطی یا چالاکی پکڑے جانے پر بدحواس ہو گئے۔ اپنی نشست سے اٹھ کر بظاہر بیرونی دروازے کی طرف جاتے ہوئے نظر آئے۔ اچانک مڑ کر طاہر اشرفی کا گریبان پکڑ لیا‘‘۔
اس میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کہیں یہ متنازعہ معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل سے نکل کر پارلیمنٹ میں نہ پہنچ جاتا۔ مولانا شیرانی کہتے ہیں کہ میں نے طاہر اشرفی کو راستے سے ہٹایا تو وہ اشرفی صاحب کو اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکے راستہ سے ہٹانا تو بہت دور کی بات ہے۔
برادرم جبار مرزا نے بہت خوبصورت کتاب لکھی ہے۔ ’’پہل اس نے کی تھی‘‘ یہ کتاب چودھرانی جی کی محبت اور اس جذبے کے گرد گھومتی ہے جس نے مرزا صاحب سے یہ کتاب لکھوائی ہے۔ میں یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہ کتاب چودھرانی جی کی بائیو گرافی یا جبار مرزا کی آٹو بائیو گرافی؟ بہرحال یہ کتاب دلچسپ اور دلکش ہے۔ جبار مرزا کی محبوبہ چودھرانی جی نے اس کتاب کا فلیپ بھی لکھا ہے۔ ’’اے جبار مرزا میں نے سب کی رضا مندی سے آپ کی بن جانا چاہا‘‘۔ جبار مرزا کی منکوحہ رانی نے لکھا۔ ’’جبار مرزا بہت اچھے شوہر ہیں‘‘۔ محبوبہ اور منکوحہ کا فرق مٹ سا گیا ہے۔ لاڑکانہ سے جام جمالی لکھتے ہیں۔ ’’یہ کتاب چودھرانی جی کے والد پڑھ لیتے تو جبار مرزا کو چودھرانی انعام میں دے دیتے‘‘۔ میرے دوست علامہ عبدالستار عاصم کی اہلیہ غیر ادیبہ دانشور خاتون کنول عاصم نے جبار مرزا کو حوصلہ دیا ہے۔ ’’انکل جی بعض چیزیں قیمت سے نہیں قسمت سے ملتی ہیں‘‘۔ جبار مرزا کا بھی ایک جملہ سنئیے جو انہوں نے کتاب کے نام کے نیچے لکھا ہے۔ ’’لازوال محبت کی آپ بیتی‘‘۔ یہ کتاب ذوق و شوق والے بردرام علی مسعود سید نے مجھے دی ہے جیسے یہ اس کی لکھی ہوئی کتاب ہو۔ یہ ’’محبت‘‘ کی آپ بیتی ہے۔ پتہ کتاب پڑھنے کے بعد بھی نہیں چلا پہل کس نے کی تھی؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن