• news
  • image

گریباں چاک علمائ

اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور علامہ طاہر اشرفی میں جھڑپ ہوئی۔ علماءنے ایک دوسرے کے گریبان پکڑ لیے اور کپڑے پھاڑ دیئے۔ اخبارات میں یہ خبر پڑھ کر میں نے سوچا، یہ کیسے عالم ہیں، وہ خود کو عالم کہتے ہیں؟ قرآن مجید میں ”علمائ“ کا لفظ دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک جگہ سورة شعراءمیں اور دوسری جگہ سورة فاطر میں، جہاں خدا کے بندوں میں سے علماءکا ذکر ہے۔ ان آیات میں کائنات کے مختلف گوشوں، بساط فطرت کے متنوع شعبوں، سائنس کے مختلف علوم، طبیعات، نباتات (Botany)طبقات الارض (Geology) حیوانیات (Zo ology)اور انسانیت کے تمام شعبوں کا ذکر کیا ہے۔ اس سے آپ اندازہ کریں کہ قرآن نے علماءکا لفظ کن لوگوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ جنہیں ہم آج کی اصطلاح میں سائنسدان اور کائناتی مفکر کہتے ہیں۔ ادب میں ڈاکٹر وزیر آغا ایک ایسی شخصیت تھے جنہیں ہم قرآنی اصطلاح کے حوالے سے عالم، سائنٹسٹ اور عالمی مفکر کہہ سکتے ہیں۔ مگر آج کے علماءکی اکثریت سائنس کے علوم سے بہت کم واقف ہے۔ ان کا علم نظری مباحث اور لفظی کتربیونت سے ایک قدم آگے نہیں جاتا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں جو سوال اٹھائے گئے، وہ انکے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ کونسل صرف ان سوالات پر رائے دینے کا اختیار رکھتی ہے جو سوال صدر، گورنر، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی اس سے پوچھے۔ مولانا طاہر اشرفی کا کہنا درست ہے کہ جو مسئلہ آج سے 42 سال پہلے طے ہو چکا ہے جس پر پاکستان بھر کے منتخب نمائندوں اور علماءکرام نے اتفاق کیا تھا۔ فقہ کی زبان میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اجماع امت تھا جس پر مسلمانوں میں کبھی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ 

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل جس انداز میں کونسل کو چلا رہے ہیں وہ نہ صرف متعصب سوچ کی عکاسی کرتی ہے بلکہ قوم کو جمود کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ مولانا شیرانی کو اسلامی نظریاتی کونسل کی سربراہی کا عہدہ ایک سیاسی رشوت کے طور پر ملا ہوا ہے۔ ان کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ آئین کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کریں اور کونسل کے ذریعے اپنی متعصبانہ رائے قوم پر مسلط کریں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جس سیاسی جماعت سے مولانا شیرانی کا تعلق ہے، اسکے سربراہ یہ بات کہہ چکے ہیں کہ پاکستان بنانے کے گناہ میں ہم شریک نہیں تھے۔ تو کیا شیرانی صاحب اس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں؟ وزیر اعظم محمد نواز شریف کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے اور اسلامی نظریاتی کونسل کو فرقہ واریت سے پاک کرنا چاہیے۔ مولانا محمد خان شیرانی کی زیر صدارت جو فیصلے اخباروں کی زینت بنتے رہے ہیں، اس نے لوگوںکو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا وفاقی شرعی عدالت اور پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے اس ادارے کا وجود ضرور ی ہے۔ جہاں تک متنازع ایجنڈے کا سوال ہے۔ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق مرزائیت کے پیروکاروں کو اسلام کے دائرہ سے خارج تصور کیا گیا ہے تو پھر ان پر مرتد کا الزام کیسے لگ سکتا ہے؟ مرتد تو وہ ہوتا ہے جو اسلام کے اصولوں سے ارتداد کرے۔ آپ کسی ہندو، سکھ، مسیحی یا یہودی کو مرتد نہیں کہہ سکتے۔ اگر مرتد یا ذِمی کی بحث کرنی ہے توہ وہ فقہ کی کتابوں میں پہلے ہی موجود ہے۔ اس پر نظرثانی کی علماءنے ضرورت محسوس کی نہ قانون اور آئین اجازت دیتا ہے۔ ایسے اقدامات قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے کے مترادف ہیں۔ قرآنی تعلیمات کےمطابق ایسی باتیں امت کے شرک سے بدتر ہیں۔ اس قسم کی باتیں لوگوں کو تشدد پر اکساتی ہیں۔ جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں بادشاہی مسجد لاہور میں علماءاس سوال پر دست و گریبان ہوئے کہ ”یارسول اللہ“ کہنا درست ہے یا ”محمد رسول اللہ“ کہنا درست ہے۔ اس واقعے نے لوگوں کو پریشان کیا۔ اب ایک آئینی ادارے میں علماءکا دست و گریبان ہونا تلخ سوالوں کو جنم دے رہا ہے۔
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے
وزیر مذہبی امور کو چاہیے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 227-230 کا بغور مطالعہ کریں اور وزیر اعظم کو مشورہ دیں کہ ایسے خود ساختہ ایجنڈے کو ریکارڈ سے خارج کیا جائے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن