5سال کم نہیں!
وزیراعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ ہم لوگ پانچ سال کیلئے آتے ہیں ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا وقت گزر جاتا ہے۔ حکومت کی اب تھوڑی تھوڑی سمجھ آنے لگی ہے۔ اب اقتدار میں آئے ہیں، آنکھ کھلی تو پتہ چلا ایک سال گزر گیا۔ گویامیاں صاحب کو پانچ سال کم لگتے ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے عرصے میں وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل اور اپنے خوابوں کی تعبیر پا سکتے ہیں۔ کچھ کر گزرنے کی نیت، جنون،عزم اور اہلیت ہو تو عرصے اور مدت کی قید نہیں رہتی۔ قائداعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں قراردادِ پاکستان 1940ءمیں پیش ہوئی۔اس میں جس منزل”حصولِ پاکستان“ کا تعین کیا گیا تھا وہ محض سات سال میں حاصل کر لی گئی۔آپ کو توبنا بنایا،اُجلااور سنوراہوا پاکستان ملامتفقہ آئین، مضبوط ادارے ملے اور تیسری بار قدرت آپکو اقتدار میں بھی لے آئی ہے ۔
جناح اور انکے ساتھیوں نے قوم کا پیسہ نہیں کھایا بلکہ وطن اور اسکی آزادی کی جدوجہد پر اپنادھن،من اورتن بھی قربان کردیا۔انکے بعدآنیوالے کچھ حکمران تو مداری اور روایتی پٹواری ثابت ہوئے۔ جنہیں عوام کا خون چوستے ہوئے کبھی شرم اورتھکن محسوس نہیں ہوئی۔ ہمارے وزیراعظم محترم کو تیسری بار اقتدار میں آنے اور35 سال سیاست میں گزارنے کے بعدبقول انکے تھوڑی تھوڑی سمجھ آنے لگی ہے۔گُروکا یہ حال ہے توچیلوں کا کیا حال ہوگا!۔ انکی سمجھ جب جوان ہو گی ، عوام کی ضرویات بوڑھی اور خواہشات سردپڑچکی ہونگی۔
حضور!پانچ سال کا عرصہ ہرگز کم نہیں۔حضرت عمر بن عبدالعزیز اڑھائی سال خلیفہ رہے۔ اس دوران سلطنت میں انقلاب آ چکا تھا۔ایوب خان نے سکندر مرزا کو معزول کر کے زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی تو راتوں رات کایا پلٹ گئی۔ آپکے پاس پانچ سال ہیں۔ ان میں ایک ہزار 1825 دن اور 43 ہزار 800 گھنٹے ہوتے ہیں۔ گرم توے پرہاتھ نہ سہی برف پر پاﺅں رکھ کر دیکھیں تو ایک ایک سیکنڈ کی اہمیت اور قدر کا اندازہ ہو جائیگا۔ پانچ سال اس لئے کم دکھائی دیتے ہیں کہ وقت کی قدر اور کاز سے کمٹمنٹ نہیں ۔ اس کا تذکرہ خود کر دیا ”آنکھ کھلی تو ایک سال گزر گیا“ عیش عشرت میں دہائیوں کے گزرنے کا بھی احساس نہیں ہوتا۔ عسرت، تنگی اور تنگدستی کا ایک ایک لمحہ عذاب اور قیامت ہوتا ہے۔ ہم میںسے کتنے ہیں جو کبھی بھوکے سوئے ہوں؟ حکومتوں میں آنیوالوں میں شاید ایک بھی نہیں ہوگا جس نے بھوک کا جبر دیکھا ہو، البتہ بےباکی کیساتھ خوش خوراکی سے موٹاپے، شوگر اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا روگ ضرور پال لیتے ہیں۔انکے نزدیک حضرت عمرؓ کی دریائے فرات جیسی مثالیں صرف سنانے کےلئے ہیں، عمل کےلئے نہیں۔ مسائل کا ادراک اور انکے حل کی جستجو ہو تو ایسی نیند نہ آئے کہ سال بعد آنکھ کھلے۔
آپ تو کہتے تھے ہمارے پاس ہر مسئلے کے حل اور بحران پر قابو پانے کےلئے بہترین ٹیمیں موجود ہیں۔ کہاں گئیں وہ ٹیمیں؟ خواجہ آصف کہتے ہیں حکومتی انجینئر نندی پور پاور پلانٹ چلانے کا تجربہ نہیں رکھتے تھے۔ جس کی وجہ سے 113 ارب سالانہ نقصان ہوا۔ خواجہ صاحب مزید فرماتے ہیں۔ ”سیاسی جلسوں میں غلط باتیں سب کرتے ہیں، میں بھی جلسوں میں غلط بات کرتا ہوں“۔ کیا دیدہ دلیری ہے!کرلے کسی نے جو کرناہے،ایسے لیڈروں کے مہا لیڈر سے کیا توقع رکھی جائے،ان لوگوں کی کس بات پر یقین کیا جائے؟
وزیر اعظم یہ بھی فرماتے ہیں کہ اکیلا وزیر اعظم کچھ نہیں کر سکتا۔ آپ نے کوہلو، کنواں یا بیلنا نہیں کھینچنا،ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا ہے جیسا قائد اعظم نے کیا اور جدوجہد کر کے مختصر وقت میں عظیم مقصد حاصل کر لیا۔ آپ فوج پر برسنے والے کو وزیر دفاع ،منی لانڈرنگ کرنیوالے کو وزیرخزانہ ،قانون سے نابلد کو وزیر قانون ، بھّلے ساز کو صدربنا دیتے ہیں۔ بڑے ادارے خدمت گزاروں، خوشامد سازوں اورجگت بازوں کے حوالے کر دیئے۔جس پر کرپشن کے الزامات وہ محتسب اعلیٰ۔ کونسا محکمہ اور وزارت ہے جو کرپشن پاک ہے۔ آڈیٹر جنرل کا کہنا ہے کہ وزارت پانی و بجلی میں 10.53 کھرب( ایک ہزاراور 53 ارب) کی بدعنوانی ہے۔ نیب کو حنیف عباسی، فضل طارق اور شکیل اعوان سمیت کئی دیگرپنڈی کے میٹرو منصوبے میں 12 ارب کی کرپشن میں مطلوب ہیں۔ شاہد خاقان عباسی فرماتے ہیں ہر سال 30 ارب روپے کی گیس چوری ہوتی ہے۔ اس میں سے ان کو بھی کیا حصہ نہیں ملتا؟ ایسے ساتھی ہونگے تو عوام کے مسائل حل کرنے اور قوم کو بحرانوں سے نجات دلانے کےلئے قیامت تک کا عرصہ بھی کم ہے۔ صوبائی اور مرکزی وزیر مشیرسابقہ اور موجودہ جو کرپشن سے پاک ہے وہ بلاشبہ ولی دوراں ہے۔
ایوب خان ڈکٹیٹر تھے۔ تمام اختیارات ایک ہاتھ میں مرتکز تھے۔ انہوں نے بلاامتیاز جرائم پیشہ افراد پر کوڑا برسایا۔ دباﺅ ان پر کوئی ڈال نہیں سکتا تھا، مصلحت کو وہ خاطر میں نہیں لاتے تھے مگر جب سیاستدانوں پر اعتبار کر لیا تو دوبارہ سے جرائم پھوٹنے لگے اور خود بانی ¿ پاکستان کی ہمشیرہ کے مقابلے میں اتر آئے۔ یوں تو جنرل ضیاءالحق اور مشرف بھی ڈکٹیٹر تھے مگر ایوب کی طرز پر قوم کو بہتر حکمرانی پہلے سے آخری روز تک نہ دے سکے۔ آج بھی معاملات سلجھانے کےلئے ایوب جیسی ڈکٹیٹر شپ کا نسخہ کارگرثابت ہو سکتا ہے۔مگر اس سے بھی زیادہ کارگراور تیر بہدف نسخہ موجود ہے۔ ہمارے پاس آئین، قانون اور ادارے ہیں۔ مصلحتوں اور دباﺅ سے بالاتر ہو کر قوانین پر عمل ہو تو وزیر اعظم نواز شریف اسی سال ملک کو جنت نظیر بنا سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی عینک سے دیکھیںتو آج بھی ملک فردوس بریں نظر آتاہے مگر عینک حقیقی عکس کی آئینہ دار نہیں ہو سکتی۔
گورنر ملک امیر محمد خان کے دور میں گندم کی قیمت 20 سے 25 روپے من ہونے پر لوگ بلبلا اٹھے۔ ان کی آہ و بکاءگورنر ہاﺅس بھی پہنچ گئی۔گورنر نے اگلے روز سرکردہ تاجروں کا اجلاس بلالیا۔ تمام تاجر ہال میں اکٹھے ہوئے تو نواب صاحب صرف ہال کے دروازے تک آئے۔ یہیں پر کھڑے ہو کر ایک مونچھ کو تاﺅ دیتے ہوئے کہا۔”میرے قابل احترام بھائیو! میں نے آج سنا ہے گندم کا ریٹ 25 روپے من ہے“ دوسری مونچھ کو تاﺅ دیتے ہوئے کہا ” کل 20 روپے من سننا چاہتا ہوں“ اگلے روز گندم واقعی 20 روپے من پر آ گئی تھی۔ آج کا حال دیکھ لیں۔ تجاوزات، ملاوٹ اور جعلی ادویات کیخلاف مہم شروع ہوتے ہی دم توڑ دیتی ہے۔حکومتی رٹ لاچار لوگوں تک محدودہے۔
میاں صاحب!جن لوگوں نے آپ کو منتخب کیا ہے ان پر رحم کرنا ہے تو ان کی زندگی کو جہنم زار بنانے والوں کیساتھ بے رحمی سے پیش آنا ہوگاخواہ وہ جتنے بھی قریبی اور قرابت دار کیوں نہ ہوں۔پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں کرپشن انتہا کو پہنچ چکی تھی۔اسی کی پاداش میں آج انتہا کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے،کرپشن سے آج کے حکام اور عمّال بھی مبرا نہیں ۔پی پی پی کے چند ایک کرپٹ لوگوں کے گرد گھیرا تنگ ہوا ہے توچیخ و پکار ہورہی ہے۔ان کا یہ مطالبہ نہیں کہ ہمیں چھوڑادیا جائے وہ کہتے ہر کرپٹ شخص سے حساب لیا جائے ۔بے لاگ احتساب کیلئے آج سے بہتر فضا شاید ہی پھر کبھی میسرآسکے ۔کرپشن ایک ناسور ہے محض ایک کرپشن کے خاتمے سے ہمارے بے شمار مسائل دہائیوں اور برسوں میں نہیں پلک جھپکتے میں حل ہوسکتے ہیں۔