’’2015ئ‘‘ ملک میں دہشت گردی کے واقعات 48 فیصد کم ہوگئے: پاک انسٹیٹیوٹ
اسلام آباد (صباح نیوز+ آئی این پی) 2015ء کے دوران پاکستان بھر میں 625 دہشت گرد حملے ہوئے جو کہ 2014ء کے مقابلے پر 48 فیصد کم ہیں۔ جوحملے رپورٹ ہوئے ان میں سے 359 حملے جو کہ کل حملوں کا 57 فیصد ہیں وہ پاکستانی طالبان کی جانب سے کئے گئے جبکہ 212 حملے مقامی طالبان گروہوں کی جانب سے کئے گئے جن میں جماعت الاحرار، خیبر ایجنسی میں موجود لشکر اسلام، سید سجنا گروپ، جنداللہ دولت اسلامیہ سے وابستہ یا حمایت یافتہ گروپ شامل ہیں۔ اسی عرصے میں بلوچ باغیوں کی جانب سے 208 دہشت گرد حملے کئے گئے۔ 58 حملے ایسے تھے جن کی نوعیت فرقہ وارانہ تھی جن میں سے زیادہ تر کے محرکین فرقہ وارانہ گروپ تھے۔ یہ اعداد و شماراسلام آباد میں قائم خود مختار تحقیقی ادارے پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی سالانہ رپورٹ میں بیان کئے گئے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2015ء کے اختتام پر مردان میں ہونے والا خود کش حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے اور اسی طرح اگرچہ کراچی آپریشن سے شہر کے اندر ہونے والے تشدد میں کمی آئی مگر جیکب آباد، کشمور، شکارپور اور سکھر کے اضلاع میں ہونے والے حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گرد وں نے اندرون سندھ بھی اپنا نیٹ ورک بنا لیا ہے۔ حتی ٰ کہ پنجاب میں بھی، جہاں پر 2015ء میں حملوں میں کمی دیکھی گئی مگر اس کو عسکریت پسندوں سے پاک قرار نہیں دیا جا سکتا جس کی مثال کچھ ہائی پروفائیل حملے ہیں جن میں پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کی شہادت بھی شامل۔ بلوچستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوںمیں اگرچہ گزشتہ سال کے مقابلے پر کمی ہوئی ہے تاہم 2015ء کے دوران پاکستان کے تمام علاقوں میں یہ پھر بھی سر فہرست رہا۔ دہشت گرد حملوں میں سب سے زیادہ کمی جہاں دیکھی گئی وہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ہے۔ جہاں 79فیصد کمی ہوئی اس کے بعد خیبر پی کے ہے جہاں یہ کمی 61فیصد ہے۔ کراچی میںبھی61فیصد، اندرون سندھ 45فیصد، پنجاب 41فیصد، فاٹا 36فیصد اور بلوچستان میں 36فیصد کمی ہوئی۔ اموات کے لحاظ سے پاکستان بھر میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ فاٹا رہا جہاں 268افراد مارے گئے، اس کے بعد بلوچستان میں 257، سندھ میں 251، خیبر پختونخواہ میں 206، پنجاب میں 83اور اسلام آباد میں 4ہلاکتیں ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق 2016ء کے آغاز سے ہی پاکستان میں دولت اسلامیہ سے وابستہ انتہا پسندوں کی گرفتاریاں آنے والے خطرے کو ظاہر کرتی ہیں۔