• news

بداعتمادی بڑھ رہی ہے‘ ہوش کے ناخن نہ لیے تو پارلیمنٹ کی اہمیت ختم ہو جائیگی : خورشید شاہ

اسلام آباد (خبرنگار+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ وفاق کے سندھ اور خےبر پی کے سے اختلافات اب کھل کر سامنے آگے ہےں، وفاق اور صوبوں مےں اعتماد کی کمی ہے، ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس حکومت نے 9 ماہ گزرنے کے باوجود نہیں بلایا۔ حکومت پارلیمنٹ کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہے، وزیراعظم کا ایوان میں نہ آنا اور وزراءکا بڑی کم تعداد میں آنا اس ادارے کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہے، اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو پارلیمنٹ کی وقعت ختم ہوجائیگی‘ پارلیمنٹ کی مضبوطی سے ادارے مضبوط ہونگے‘ اگر ہر کام عدلیہ نے کرنا ہے تو اس ادارے کا کیا فائدہ‘ میمو سکینڈل پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کے لئے لایا گیا تھا‘ صوبوں کے مسائل مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے حل ہونے چاہئے مگر وفاقی حکومت آئین سے انحراف کررہی ہے حکومت کو خوف ہے کہ صوبے آئینگے اور وہ اپنے مسائل اجاگر کریں گے۔ موجودہ حکومت کے تین سال ہوچکے ہیں مگر قانون سازی کا عمل سست ہے تےن سالوں مےں صرف 37بل منظورکےے گئے جبکہ پےپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے صرف اڑھائی سالوں مےں 61 بل منظور کئے۔ اپوزیشن ایک تہائی ہوتے ہوئے بھی حکومتی ارکان سے زیادہ ہوتے ہیں، حکومت کو اس ایوان کی طاقت کا احساس ہونا چاہئے۔ مشیر خارجہ کے بیان میں تضاد تھا جس کی وجہ سے میڈیا میں جگ ہنسائی ہوئی۔ جب حکومت کو اپنے لالے پڑے تھے تو پارلیمنٹ نے ہی بچایا، مشکل وقت میں وزیراعظم اور وزراءروز یہاں آتے تھے۔ ایوان اور گیلریز سونی پڑی ہیں۔ ایک وزیر نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی فارغ تھے اس لئے روزانہ پارلیمنٹ آتے تھے، سپیکر اس بیان کا نوٹس لیں۔ بدقسمتی سے وفاقی حکومت آئین کو مسلسل نظرانداز کر رہی ہے جو خطرناک بات ہے۔ اگر پارلیمنٹ خود آئین پر عمل نہ کر سکے، کمزور ہو تو جمہوریت کیسے مضبوط ہو گی۔ سعودی عرب اور ایران کے معاملے پر کمزور بیان دیا گیا، کیا ثابت کیا گیا کہ پاکستان کچھ نہیں ہے، یہ خورشید نہیں بول رہے، عوام بول رہے ہیں، انہوں نے حکومت کو تنبیہہ کی کہ آئین کو مضبوط کرے جسے کوئی ڈکٹیٹر ختم نہیں کر سکا لیکن اگر اس آئین سے بالا سوچا گیا تو پھر کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ دوسری جانب کورم ٹوٹنے پر حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ گیا اور اجلاس آج ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دیا۔ ایوان میں صدر کے خطاب پر بحث جاری تھی اور پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ تقریر کر رہی تھیں، جیسے ہی انہوں نے تقریر ختم کی تو فوراً پیپلز پارٹی کے متعدد ارکان ایوان میں کھڑے ہو گئے۔ فلور ملنے پر جاوید عباسی نے کورم کی نشاندہی کی، اس وقت وزیر داخلہ چودھری نثار ایوان میں موجود تھے۔گنتی سے قبل متعدد حکومتی ارکان ایوان میں پہنچے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے متعدد ارکان ایوان سے باہر چلے گئے تاہم جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، فاٹا اور بعض دیگر جماعتوں کے ارکان گنتی کے دوران موجود رہے۔ گنتی مکمل ہونے پر کورم کم نکلا۔ قبل ازیں اپوزیشن نے نیشنل ایکشن پلان پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اب سیاست کی نذر ہو چکا ہے اور اس میں توڑ پھوڑ شروع ہے جو ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں، ملک میں گورننس فیل ہو چکی ہے پورا نظام تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ مسخ شدہ چہرے پر سرخی پوڈر لگا کر اسے عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے، قطر سے مہینے میں دو جہاز ایل این جی کے آ رہے ہیں ان کی قیمتوں کا تاحال پتہ نہیں چل سکا۔ نیب اور ایف آئی اے کو سیاستدانوں کے پیچھے لگا دیا گیا ہے جبکہ ٹیکس ایمنسٹی بل کو کرپشن کی شکل میں کھول دیا گیا ہے، مولانا عبدالعزیز کے خلاف ثبوت مانگے جاتے ہیں جبکہ سندھ میں سیاستدانوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شفقت محمود نے کہا کہ بھارت میں پٹھانکوٹ ایئربیس پر حملہ ہوا، بھارت سے تعلقات میں بہتری کی طرف جا رہے تھے اس حملہ سے برا اثر پڑا ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے کچھ افراد کی شمولیت کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔ 15 جنوری کو سیکرٹری خارجہ سطح پر بات چیت کا کیا سٹیٹس ہے۔ ماروی میمن نے کہا کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری ہی ہماری حکومت کا کارنامہ ہے حکومت کے بہتر اقدامات کے ذریعے ملک کی معیشت کی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔ دو سال کی کارکردگی کی رپورٹ بھی ایوان میں پیش کی جائے گی۔ حکومتی ارکان نے اپنی معاشی داخلی اور خارجی پالیسیوں کا دفاع کیا اور کہا کہ آج کا پاکستان 2013ءکے پاکستان سے بہتر ہے۔ وزیر ریلوے نے ایوان کو بتایا کہ اب بھی ریلوے کی سینکڑوں ایکڑ اراضی پر سرکاری اور دفاعی محکموں کا قبضہ ہے۔ وزیر سیفران نے کہا کہ لیویز میں 15 ہزار میں سے 5 ہزار بھرتیاں کی گئی ہیں۔ فاٹا کے آئی ڈی پیز سال کے آخر تک اپنے گھروں میں ہونگے۔ ایوان میں خزانہ، مذہبی امور، سمندر پار پاکستانیز اور اطلاعات و نشریات کی قائمہ کمیٹیوں کی 4 رپورٹیں پیش کر دی گئیں۔
قومی اسمبلی

ای پیپر-دی نیشن