گھوسٹ پنشنرز، سینٹ قائمہ کمیٹی نے نیشنل بنک سے 8 سالہ ریکارڈ طلب کر لیا
اسلام آباد (این این آئی) سینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے نیشنل بنک سے تمام پینشنرز کا آٹھ سالہ ریکارڈ طلب کرلیا اور نیشنل بنک کو ہدایت کی ہے کہ پینشنرز کی تصدیق کے لیے 31مارچ تک تمام برانچوں میں بائیومیٹرک تصدیق کے لیے مشینیں نصب کی جائیں۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ صدر نیشنل بنک اپنے ملازمین کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہ بنائیں۔ بہترین کارکردگی کے باوجود خالد بن شاہین کے کنٹریکٹ میں توسیع نہ کرنا ناانصافی ہے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت نیشنل بنک ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہوا۔ اجلاس میں نیشنل بنک میں چھ لاکھ گھوسٹ پینشنرز کے معاملے کا جائزہ لیا گیا۔ نیشنل بنک حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نیشنل بنک کے پینشنرز کی تعداد بائیس لاکھ سے کم ہوکر پندرہ لاکھ ہوچکی ہے۔ اب کوئی گھوسٹ پینشنر نہیں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے نیشنل بنک کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر نیشنل بنک میں کوئی گھوسٹ پینشنر نہیں تو بنک سے نکلنے والے چھ لاکھ پینشنرز کا ریکارڈ کمیٹی کو بھیجا جائے۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ 2005سے 2014 کے تمام پینشنرز کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔ نیشنل بنک حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پینشنرز کی بائیو میٹرک تصدیق کے لیے مشینوں کی خریداری کا عمل شروع کردیا ہے۔ بہت جلد تمام برانچوں میں جدید مشینیں نصب کی جائیں گی۔ سلیم مانڈوی والا نے ہدایت کہ کہ 31 مارچ تک نیشنل بنک کی تمام برانچوں میں بائیو میٹرک تصدیق کے لیے مشینیں نصب کردی جائیں۔ چیئرمین نیشنل بنک منیر کمال نے بتایا کہ نیشنل بنک ترسیلات زر بڑھانے کے لیے اہم اقدامات کررہا ہے۔ سابق سینیئر نائب صدر خالد بن شاہین کے دور میں نیشنل بنک نے ترسیلات زر کے شعبے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ نیشنل بنک کے ترسیلات زر 1.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے۔ نیشنل بنک کے صدر ندیم اقبال نے بتایا کہ خالد بن شاہین کے خلاف نیب نے انکوائری شروع کررکھی ہے۔ ان کے بنک اکاونٹس کی تحقیقات ہورہی ہیں۔ جس پر ان کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا ہے۔ خالد بن شاہین پر تاحال کوئی الزام ثابت نہیں ہوا نہ ہی ان پر کرپشن کا کوئی الزام ہے تاہم مختلف حلقوں کی جانب سے خالد بن شاہین کو ملازمت سے فارغ کرنے کے لیے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے کنٹریکٹ میں مزید توسیع نہیں کی گئی۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ کنٹریکٹ میں توسیع نہ کرنا ناانصافی ہے۔ یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ صدر نیشنل بنک بغیر کسی الزامات کے خالد بن شاہین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگر خالد بن شاہین پر الزامات نہیں ہیں تو پھر انہیں ملازمت سے کیوں فارغ کیا گیا۔ بتایا جائے کہ خالد بن شاہین کو ملازمت سے فارغ کرنے کے لیے نیب، ایف آئی اے یا کسی اور ادارے نہ دبائو ڈالا ہے۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ کسی ملازم کے خلاف محض انکوائری شروع ہونے پر اسے ملازمت سے فارغ نہیں کیا جاسکتا۔ اجلاس میں نیشنل بنک بنگلہ دیش میں ہونیوالے فراڈ پر بھی غور کیا گیا۔