عمران خان کی اپوزیشن اور پوزیشن؟
عمران خان کے لئے لوگوں نے اس کے بھٹو ہونے کی خبر دی تھی مگر وہ بھٹو نہ بن سکا۔ پھر اس نے نواز شریف کی مخالفت کے باوجود نواز شریف بننے کی کوشش کی۔ حیرت ہے کہ بینظیر بھٹو نے بھی نواز شریف بننے کی کوشش کی۔ آصف زرداری نے بینظیر بھٹو کو امیر کبیر ہونے کی طرف مائل کیا۔ اس کا مطلب ہے وہ قائل تو پہلے ہی تھیں مگر اس دولت سے فائدہ زرداری صاحب نے اٹھایا۔ ورنہ تیسری بار وزیراعظم بننے کا موقع بینظیر بھٹو کے لئے تھا۔ آصف زرداری کو ’’صدر‘‘ زرداری بینظیر بھٹو کی شہادت نے بنایا۔
کسی زمانے میں لوگوں کے ووٹ پرو بھٹو اور انٹی بھٹو میں تقسیم ہوئے۔ نواز شریف نے انٹی بھٹو ووٹ حاصل کئے اور اقتدار کے دروازے بھی ان پر اسی حوالے سے کھلتے چلے گئے پھر وہ زمانہ بھی آ گیا کہ ووٹ پرو نواز شریف اور انٹی نواز شریف کے پیمانے پر تقسیم ہوئے۔
عمران ایک مقبول سیاستدان ہوتے ہوئے ابھی اس مقام پر نہیں پہنچا کہ لوگ پرو عمران اور انٹی عمران کے حساب سے تقسیم ہوں۔ پاکستان میں کسی کے ساتھ سیاسی وفاداریوں کا یہ معیار نہیں ہے کہ کسی سیاستدان کے کتنے حامی ہیں۔ یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ کس سیاستدان کے مخالف کتنے ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف آج کل مقبولیت اور محبوبیت کی انتہا پر پہنچے ہیں۔ مگر ان کے مخالف نہ ہونے کے برابر ہیں۔اس بات کا موازنہ ہم بھٹو یا نواز شریف سے نہیں کر سکتے۔ بھٹو پانچ سال کے عرصے میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے قبضے میں چلے گئے۔ عمران پانچ مہینوں میں ہی یہ غلطی کر بیٹھے۔ انہوں نے حلقہ 122لاہور میں عبدالعلیم خان اور حلقہ 154لودھراں ملتان سے جہانگیر ترین کو پارٹی ٹکٹ دے دیا۔ سنا ہے علیم خان اور جہانگیر ترین نے روپیہ لٹانے کا ریکارڈ بنا دیا۔ دوسری طرف سے بھی کم نہیں کیا گیا۔ اب الیکشن لڑنے کا معیار صرف دولت ہی ہے۔ کوئی قابل اور اچھا آدمی الیکشن لڑنے کا سوچ نہیں سکتا۔ پارٹی ٹکٹ بھی اسی حساب کتاب سے ملتے ہیں۔ عمران خان بھی روایتی انداز میں ٹکٹ تقسیم کرتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تو پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ ہیں مگر اصلی تے وڈا اپوزیشن لیڈر عمران خان کو سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت پورے پاکستان میں اور کوئی اپوزیشن لیڈر ہی نہیں ہے۔ جس کا نام لیا جا سکے ۔ ایک زمانے میں نوابزادہ نصراللہ خان کی شخصیت میں اپوزیشن لیڈر ہر دم جواں اور رواں دواں رہتا تھا مگر نوابزادہ نصراللہ خان کا موازنہ عمران خان کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان کی اپوزیشن کوئی نہ کوئی پوزیشن حاصل کرنے کے لئے ہے۔ وہ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ سیاست میں آنے کے بعد ہر آدمی کی منزل اقتدار ہی ہوتی ہے۔ اس منزل کو پا لینے کے لئے مسافر ہونا کافی نہیں ہے۔ ہمسفر بھی بہت ضروری ہیں۔ اکیلے میں یہ منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔
نوابزادہ نصراللہ سے میری بہت ملاقات تھی۔ وہ بہت شفقت کرتے تھے۔ لاہور میں ریلوے سٹیشن کے پاس بوہڑ والا چوک میں ان کا ڈیرہ تھا جو ہر وقت آباد رہتا تھا۔ بڑے بڑے لوگ یہاں پہ نوابزادہ صاحب کے پاس دیکھے گئے۔ جب وہ فوت ہوئے تو میں نے فوری طور پر کالم لکھا جس میں یہ گزارش کی گئی کہ ان کو لاہور میں ان کے ڈیرے پر دفن کیا جائے تو وہ سیاست اور علم و ادب کا لوگوں کا ٹھکانہ بنا رہے گا اور یہ جگہ آباد رہے گی۔ یہ بات میرا کالم پڑھ کر برادرم جاوید ہاشمی نے ملتان کے ہوائی اڈے پر نوابزادہ صاحب کے بیٹوں کو کہی مگر وہ اس پر عمل نہ کر سکے تو آج لوگ اور بالخصوص سیاستدان انہیں بھول گئے ہیں انہیں خان گڑھ ان کے آبائی شہر میں دفن کیا گیا۔ وہاں کوئی ان کی قبر پر چراغ جلاتا ہے کہ نہیں۔ میرے دل میں ان کی یاد کا چراغ جلتا ہے۔ یہاں چراغوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور کشادگی بھی بڑھتی جاتی ہے۔
نوابزادہ صاحب ساری عمر لاہور میں رہے یہی حال مجاہد ملت عبدالستار خان نیازی کا ہوا۔ وہ عمر بھر لاہور میں رہے اور دفن میانوالی میں ہوئے۔ میں ان کی قبر پر گیا ہوں۔ باقاعدہ اسے مزار کی شکل دے دی گئی ہے۔ مگر وہاں ایک ویرانی تھی اور حیرانی تھی۔ میں دونوں کیفیتوں میں دیر تک ڈوبتا ابھرتا رہا اور غرق ہونے سے پہلے باہر نکل آیا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں ورنہ اس دریا میں ڈوب جانے کا بہت خطرہ تھا۔
عبدالستار خان نیازی کے بعد میانوالی کے لوگ عمران خان کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ 2013ء کے الیکشن میں میانوالی کی دونوں سیٹوں سے تحریک انصاف جیتی تھی۔ ایک سیٹ پر عمران خان خود جیت گئے مگر پھر انہوں نے یہ آبائی سیٹ چھوڑ دی۔ میانوالی کے لوگوں کی محبت کو یہ ٹھکرانے والی بات تھی اور ضمنی الیکشن میں یہ سیٹ تحریک انصاف ہار گئی۔ یہ عمران خان کی ہار ہے۔
اپوزیشن لیڈر کے طور پر بھی عمران خان نوابزادہ نصر اللہ کے مقابلے کے سیاستدان نہیں ہوسکتے۔ نوابزادہ صاحب تقریباً ہر حکومت کی اپوزیشن میں تھے۔ عمران خان صرف نوازشریف کی حکومت کیخلاف ہے جبکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف حکومت میں ہے۔ اس طرح کی سیاسی پالیسی کی ابتدا مولانا فضل الرحمن نے کی تھی۔ وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے اور خیبر پختونخواہ میں انکی حکومت تھی۔ پھر پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان تھے۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈر کے طور پر اپنی دلیری اور دلبری قائم رکھی۔ وہ اپنی پوزیشن اور اپوزیشن کیلئے حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں مقامات پر اپنی حیثیت کو داغدار نہیں ہونے دیتے۔
اب خورشید شاہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ قائم علی شاہ اور خورشید شاہ دونوں ’’صدر‘‘ زرداری کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ قومی اسمبلی میں عمران خان کو اپوزیشن لیڈر ہونا چاہئے تھا اور انہیں خیبر پختونخواہ میں حکومت نہیں بنانا چاہئے تھی۔
…٭…٭…٭…