دوستی میں دشمنی، دشمنی میں دوستی ؟
بھارت کے پٹھان کوٹ ایربیس پر ’’مشکوک‘‘ حملے کے لئے کئی باتیں ہو رہی ہیں جناب مودی کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ وہ پیرس میں نوازشریف کو اچانک اور حیرت انگیز بلکہ پریشان کن انداز میں ملا اور سرگوشیاں کیں جسے میں نے پچھلے کسی کالم میں ’’سرگوشیاں‘‘ کہا تھا۔ وہ بات نوازشریف نے قوم کو بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ذاتی باتیں دوسروں کو نہیں بتائی جاتیں پھر اچانک اور یکایک کابل سے لاہور آ کے جاتی امرا رائے ونڈ میں کوئی ’’خاص‘‘ ملاقات کی یہ تو بالکل ذاتی وزٹ تھی۔ ورنہ وہ اسلام آباد آئے۔ یہاں نوازشریف کی نواسی مہرالنسا کی شادی میں شرکت کی اور نوازشریف کی سالگرہ کا کیک کاٹا۔ دونوں باتوں کا پہلے سے مودی کو علم تھا۔ اس نے تحفے تحائف بھی دئیے۔ جو بھارت سے اپنے ساتھ لائے گئے تھے اگر کابل میں اچانک خیال آیا تو بھارت سے تحفے ساتھ لانے کا کیا جواز ہے؟۔ یہ ذاتی نوعیت کی باتیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ بھی ذاتی وزٹ تھی۔ یہاں کیا بات ہوئی وہ بھی کسی کو نہیں بتائی گئی۔ اگر کوئی بات پاکستان یا پاکستانی قوم کے حوالے سے تھی تو اسے بیان کرنے میں کیا حرج ہے؟ اگر نہیں بتائی گئی کوئی قومی نوعیت کا معاملہ صرف ذاتی نہیں ہو سکتا۔
ان دونوں ذاتی واقعات کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ پٹھان کوٹ کا واقعہ بھی ’’ذاتی‘‘ ہے؟۔ اس ذاتی معاملے کا کوئی تعلق نوازشریف کی ذات کے ساتھ نہیں ہے۔ تو مودی جی کی ذات کے ساتھ تو ضرور کچھ نہ کچھ تعلق ہو گا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے اتنے قریبی رابطے کے بعد جس نے یہ سب ڈرامہ کیا ہے تو وہ دونوں کا دشمن ہے۔ اسے دونوں ملکوں کی دشمنی سے بھی کسی نہ کسی طرح جوڑا جا سکتا ہے۔ جب بھی مفاہمت کی کوئی بات ذاتی یا ملکی ہونے لگتی ہے تو کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے۔؟ یہ بھی ہوتا ہے کہ شدید کشیدگی کے دوران کچھ کشادگی کی واردات ہو جاتی ہے؟ یہ معاملات سمجھ سے باہر ہیں۔ ہم ان میں پھنس کے رہ پاتے ہیں۔
پٹھان کوٹ کے واقعے کے فوراً بعد مودی جی کا بیان اتنا برا نہ تھا اتنا اچھا بھی نہ تھا۔ ان کے بقول پٹھان کوٹ کا واقعہ انسانیت کے دشمنوں نے کیا ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انسانیت کے دشمن کون ہیں؟۔ اب یہ الزام پاکستان پر حسب معمول لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تو پھر انسانیت کا دشمن کون ہے؟ پہلے ہم بھارت کے دشمن بنائے تھے۔ اب انسانیت کے دشمن ہو گئے ہیں ہماری ’’ترقی‘‘ ہو گئی ہے؟
دہشت گرد بھارت میں بہت کم تقریباً نہ ہونے کے برابرکارروائیاں کرتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ یہ دہشت گرد پاکستانی ہیں تو کیا یہی دہشت گرد پاکستان میں بھی کارروائیاں کرتے ہیں پھر یہ پاکستان کے دشمن ہیں۔ یہ صحیح ہے تو یہ بھی صحیح ہے کہ یہ دہشت گرد دونوں ملکوں کے دشمن ہیں۔
میری گزارش یہ ہے کہ بھارت میں حملے کے دہشت گردوں کے لئے اتنا تردد اور تعصب برتا جاتا ہے تو پاکستان پر حملوں کے دہشت گردوں کے لئے کوئی تکلف ہی کر لیا جائے۔
بھارت میں جو بھی کارروائی ہوتی ہے تو الزام پاکستان پر لگتا ہے تو جو کارروائیاں پاکستان میں ہوتی ہیں تو ان کا الزام بھارت پر کیوں نہیں لگایا جاتا۔ ہمارے حکمران بھارت کا نام لینے سے کیوں گھبراتے ہیں۔ بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کے شواہد اور ثبوت بھارت کے حوالے کر دئیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں بھی شکایت لگائی گئی ہے مگر دہشت گردی کی کارروائی کے وقت بھارت پر الزام نہیں لگایا جاتا۔
عجب بات ہے کہ بھارت میں دھماکہ نہیں ہوتا خودکش دھماکہ تو بالکل نہیں ہوتا۔ وہاں صرف حملے ہوتے ہیں بمبئی میں حملہ ہوا۔ سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ ہوا۔ اب پٹھان کوٹ پر بھی حملہ ہوا ہے۔
پاکستان میں بھی آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تھا ہمارے سپہ سالار جنرل راحیل شریف فوراً افغانستان گئے تھے۔ افغانستان میں بھارت کی بالادستی اور وہاں سے افغان دہشت گرد بھیجنے کے لئے آسانی ہے مگر شک بلکہ یقین ہونے کے باوجود ہم نے بھارت پر الزام نہیں لگایا۔ یہ بھارت کو پتہ چل جاتا ہے کہ بمبئی اور پٹھان کوٹ پر حملہ کرنے والے پاکستانی تھے مگر ہمارے لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والے افغانستان سے آئے تھے اور بھارت وہاں پوری طرح اختیار اور وسائل کے ساتھ موجود ہے دہشت گردوں کا ان کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔
پٹھان کوٹ پر حملے کا الزام یہ بھی ہے کہ دہشت گردی منصوبہ پاکستان کے ایک فضائی اڈے پر تیار کیا گیا ہے۔ کیا یہ معاملہ ائرفورس تک پھیلایا جا رہا ہے۔ بری فوج کی باری بھی آ جائے گی۔ کیونکہ بھارت سرحدی اشتعال انگیزیوں سے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا۔
ایک طرف تو بھارتی وزیراعظم مودی جی پاکستانی وزیراعظم نوازشریف سے ذاتی دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ مخالفانہ کارروائیاں بھی جاری ہیں اب دوستی میں دشمنی اور دشمنی میں دوستی کا فارمولہ اپنایا جا رہا ہے۔ ہمارے لوگوں کو مروت میں نہیں آ جانا چاہئے۔ ذاتی کاروباری سرکاری اور قومی معاملات پر نظر رکھنا چاہئے۔