• news
  • image

’’بھارت کو دِل دینے کا بہانہ؟‘‘

عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ٹی ٹونٹی کپتان شاہد آفریدی اپنے اپنے مقام پر زبان و بیان کے حوالے سے میڈیا میں زیر بحث ہیں۔ خبروں کے مطابق شیخ صاحب نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ٹخنے کو نیفا کہہ دِیا۔ اُنہوں نے جوشِ جذبات میں کہا کہ ’’نیفے سے اوپر شلوار اٹھانے والے سُن لیں!‘‘ اِس پر بعض ارکانِ اسمبلی نے شیخ رشید احمد کی تصیح کی اور انہیں بتایا کہ ’’شلوار نیفے کے اوپر نہیں بلکہ ٹخنے سے اوپر اٹھائی جاتی ہے‘‘۔ چنانچہ شیخ صاحب نے اپنے الفاظ واپس لے لئے۔ 

’’شیخ رشید اور آفریدی کی اُردو‘ ‘
شیخ رشید احمد پنجابی کشمیری ہیں اُن سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اہلِ زبان کی طرح اُردو بولیں اور اُن سے ٹخنے ( پنجابی میں گِٹّا) اور نیفہ ( ازار بند غلاف) میں فرق کا ابھی تک عِلم نہیں تو اُن کا کیا قصور؟ کہ اہل ِزبان نے تو غیر اہلِ زبان اصحاب کو خود ہی یہ رعایت دے رکھی ہے …؎
’’ کہ آتی ہے اُردُو زبان آتے آتے !‘‘
اُردو کے شاعر غلام مصطفیٰ مصحفی ؔکامل اُستاد تھے لیکن اُنہوں نے مِیر تقی مِیر اور مرزا غالبؔ کی اُردو دانی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہُوئے کہا تھا کہ …؎
’’ خُدا رکھّے زباں ہم نے سُنی ہے مِیرؔ و مِرزاؔ کی
کہیں کِس مُنہ سے ہم اے مصحفیؔ اُردو ہماری ہے‘‘
شیخ رشید احمد نے تو کبھی یہ دعویٰ ہی نہیں کیا کہ ’’اُردو ہماری ہے‘‘۔ پنجابی نژاد شاعر جناب حفیظ جالندھری کا معاملہ مختلف تھا جنہوں نے کہا تھاکہ …؎
’’ حفیظؔ اہل زباں کب مانتے تھے؟
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں!‘‘
حفیظ جالندھری صاحب سے بہت پہلے مرزا داغؔ دہلوی نے کہا تھا کہ…؎
’’اُردو ہے جِس کا نام ، ہمی جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دُھوم ہماری زباں کی ہے‘‘
لیکن ہمارے حکمران اور حزبِ اختلاف کے سیاستدان پاکستان سے باہر جا کر اُردو کے بجائے غلط انگریزی میں تقریریں کرتے ہیںاور جب اُن کے میڈیا منیجرز سے پوچھا جاتا ہے تو وہ اسے ’’لغرش زبان‘‘ (Slip of the Tongue)کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ عجیب اتفاق ہے کہ انگریزی زبان میں "Tongue" (ٹنگ) زبان کو کہتے ہیں اور پنجابی میں لات/ ٹانگ کو۔ جب حکمران طبقہ مفلوک اُلحال عوام کے مسائل پر توجہ نہیں دیتا تو اُن کے اس موڈ کو ’’ٹنگ تے ٹنگ دھر کے سونا‘‘ کہتے ہیںاور اُردو میں کہتے ہیں’’ٹانگ پسار کر سونا‘‘ یعنی بے فکر ہو کر سونا۔ شیخ رشید احمد کی اُردو اِتنی اچھّی نہیں ہے کہ انہیں ’’ٹخنے اور نیفے‘‘ میں فرق معلوم ہوتا۔ اسی لئے اُنہوں نے اپنے الفاظ واپس لے لئے۔
شاہد آفریدی کی اُردو کے بارے میں معاملہ فیصلہ طلب ہے۔ لاہور میں ایک صحافی نے آفریدی صاحب سے اُن کی کارکردگی کے بارے میں سوال کِیا تو وہ بھڑک اُٹھے اور بولے کہ ’’مجھے آپ سے ایسے ہی گھٹیا سوال کی امید تھی!‘‘۔ اپنے صحافی بھائی کی حمایت میں میڈیا کے لوگوں کو بھی طیش آگیا۔ اُن کا مطالبہ ہے کہ ’’شاہد آفریدی اُس صحافی سے معافی مانگیں‘‘۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین جناب شہریار خان نے ’’لغزشِ زبان‘‘ کی رعایت دیتے ہُوئے کہا کہ ’’شاہد آفریدی کی اُردو اچھی نہیں ہے۔ بعض اوقات الفاظ مُنہ سے نکل جاتے ہیں۔ بات کو درگزر کیا جانا چاہیے‘‘۔ حیرت ہے کہ جناب شہریار خان اہل زبان ہیں اور اُن کی صحبت میں رہ کر بھی آفریدی صاحب اپنی اُردو ’’اچھی‘‘ نہیں کرسکے۔ جو چیز اچھی نہ ہو اُسے بھی ’’گھٹیا‘‘ ہی کہتے ہیں۔ غلط اور گھٹیا اُردو بولنے پر اگر آفریدی صاحب اپنے الفاظ واپس لے لیں تو مناسب ہوگا۔ میڈیا والے فراخدِل ہوتے ہیں ۔ عام طور پر سیاستدانوں اور کھلاڑیوں کو معاف کردیتے ہیں ۔
’’بھارت کو دِل دینے کا بہانہ؟‘‘
وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل ( ر) عبدالقادر بلوچ نے ایک پرائیویٹ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت بھارت کے ساتھ مِل کر کام کر رہی تھی۔ اس حل کو فوج اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی لیکن کوئی پتہ نہیں کہ دوبارہ ہم اِس حل کی طرف جاسکیں گے یا نہیں؟‘‘۔ جنابِ بلوچ نے کہا کہ ’’جنرل (ر) پرویز مشرف کے دَور میں مسئلہ کشمیر کا نرم ترین حل تلاش کیا جاسکتا تھاکیونکہ اُن کی پُشت پر فوج تھی‘‘۔
اپنے انٹرویو میں عبدالقادر بلوچ صاحب نے نہیں بتایا کہ مسئلہ کشمیر کا وہ ’’نرم ترین حل‘‘ کیا تھا؟ جس پر ہمارے فوجی صدر کے دَور میں پاک فوج کی پشت پناہی سے ہماری حکومت اور بھارت کی جمہوری حکومت ساتھ مل کر کام کر رہی تھی۔ وفاقی وزیر کا یہ بیان بھی وضاحت طلب ہے کہ ’’ہماری حکومت قومی مفاد میں جو بھی حل تلاش کرے گی فوج اُس کی حمایت کرے گی‘‘۔ میاں نواز شریف کو تیسری بار وزارت عُظمیٰ پر فائز ہوئے اڑھائی سال سے زیادہ مُدّت ہوگئی ہے۔ اِس دوران موصوف نے ’’قومی مفاد میں‘‘ مسئلہ کشمیر کا کیا حل تجویز کیا؟ کسی کو نہیں معلوم۔ اُن کے قریبی ساتھیوں کو بھی نہیں۔ جب یہ حل منظرِ عام پر آئے گا تو اُس کے ’’نرم یا گرم‘‘ ہونے کا پتہ چلے گا۔
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ہم (یعنی حکومتِ پاکستان، پاک فوج اور عوام) مقبوضہ کشمیر کو بھارت سے چھڑانے کے لئے ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گے‘‘۔ لیکن اقتدار میں آکر جنابِ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کچھ نہیں کیا۔ کشمیری وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی نہیں۔ جنابِ بھٹو کے ’’روحانی فرزند‘‘ جنابِ زرداری نے تو منصبِ صدارت سنبھالتے ہی نہ جانے یہ خواہش کیوں کی تھی کہ ’’کیوں نہ ہم 30 سال کے لئے مسئلہ کشمیر کو "Freeze" (منجمد) کردیں؟‘‘۔ ہمارے ہر دور کا وفاقی وزیر امورِ کشمیر نمائشی ہوتا ہے اور کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بھی۔ مولانا فضل اُلرحمن وفاقی وزیر کی مراعات کے ساتھ گذشتہ ساڑھے سات سال سے چیئرمین کشمیر کمیٹی ہیں اور جب پورے پروٹوکول کے ساتھ بھارت کے دَورے پر تشریف لے جاتے ہیں تو اُن کا مقصد داراُلعلوم دیو بند کی تقریبات میں شرکت کرنا ہوتا ہے۔
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں قومی اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن نے اکثریت حاصل کی تو میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ ’’عوام نے مجھے اور میری جماعت کو بھارت سے دوستی اورتجارت کے لئے ووٹ دئیے ہیں‘‘۔ پاکستان کے عوام اور اُدھر مقبوضہ کشمیر کے عوام حیران تھے کہ ’’یہ ہمارے کشمیری وزیراعظم کو کیا ہوگیا؟‘‘۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کا کولمبو میں تازہ ترین بیان ہے کہ ’’وزیراعظم بنتے ہی مَیں نے طے کرلیا تھا کہ بھارت سے تعلقات بہتر بنانا ہیں‘‘۔ لیکن بھولے میاں صاحب! تعلقات کی بہتری کے لئے دونوں فریقوں کا ’’طے کرنا‘‘ ضروری ہوتا ہے۔ یک طرفہ تو عِشق ہوتا ہے جو اکثر ناکام ہو جاتا ہے۔ 40 برس پہلے (جب وزیراعظم نوازشریف نوجوان ہوں گے) ایک پنجابی شاعر کے فلمی گیت کا مُکھڑا تھا۔
’’ دِل دین لئی کِسے نُوں نذرانہ
تے پِھراں میں بہانہ لبھّدا‘‘
66 سال کی پختہ عُمر میں بُت کافر (بھارت) کو دِل دینے کا بہانہ ڈھونڈنے سے کچھ نہیں مِلے گا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن