سوال گھٹیا‘ کیا جواب اعلیٰ تھا؟
چند پرستار بچے شاہد آفریدی سے آٹوگراف لینے کیلئے کھڑے تھے۔ ہیرو نے ایک بچے کو آٹوگراف دیا اور کہا کہ باقی سب اس کی فوٹو کاپی کروا لیں۔ بچے اس جواب سے بہت مایوس ہوئے‘ معصوم آنکھیں بھر آئیں لیکن شاہد آفریدی کو شاید اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ یہ تلخ جملہ کہہ کر چلتے بنے۔ اسی طرح وسیم اکرم نے ایک تقریب میں پرستاروں کے ساتھ تصاویر بناتے ہوئے کہا کہ اتنی تصاویر کی بات تو نہیں کی گئی۔ اس کے پیسے تو طے نہیں ہوئے تھے۔ یہ صرف دو مثالیں ہیں جو ہمارے کرکٹ کے ہیروز کی اعلیٰ ظرفی کیلئے کافی ہیں۔ ہم اس لئے کہتے ہیں کہ بے خبری نعمت ہے اور شائقین کرکٹ کی اکثریت اس نعمت سے مالامال ہے۔ اسی تربیتی کیمپ میں ہی انہوں نے کرکٹ بورڈ کے ایک افسر کی بے عزتی کی میڈیا کے نمائندوں نے یہ منظر بھی دیکھا۔ اپنے طویل کیرئیر میں وہ ایسے کھلاڑی نہیں رہے جو تنازعات کا شکار نہیں ہوئے۔ بات پچ اکھاڑنے کی ہو یا گیند چبانے کی یا پھر کرکٹ بورڈ کے ضابطہ اخلاق کو توڑتے کی یا پھر دوران سیریز ٹیم کی کپتانی چھوڑ کر وطن واپس بھاگ آنے کی یا پھر سابق کھلاڑیوں کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کرنے کی شاہد خان آفریدی کے کیریئر میں ایسے کئی واقعات ہیں جو انہیں گراو¿نڈ اور کھیل کے میدان سے باہر ایک متنازعہ کھلاڑی ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کچھ تلخ حقائق ایسے ہیں جن کا عوام تک نا پہنچنا ہی بہتر ہے۔ اب حالیہ تنازعہ شاہد آفریدی کی بے صبری کی تازہ مثال ہے جہاں انہوں نے ایک صحافی کے سوال کوگھٹیا قرار دیا پوچھا صرف یہ گیا کہ آپ کی کپتانی میں ٹیم کی کامیابی کا تناسب بہتر نہیں۔ کوئی پوچھے اس میں کیا گھٹیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کارکردگی خراب ہے اور بحیثیت کپتان انہیں اس کارکردگی کی وضاحت کرنی چاہیے۔ الٹا وہ صحافی پر برس پڑے۔ شہریار خان، انتخاب عالم اور مصباح الحق نے شاہد آفریدی کو سپورٹ کرتے ہوئے انہیں اپنے تئیں بچانے کی کوشش بھی کی ہے۔ لیکن شاہد آفریدی کو پریس کانفرنس کے دوران ایسے الفاظ کا استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا ان کا سوال کرنے والے صحافی سے کوئی ذاتی مسئلہ تھا تو اسے وہ ذاتی حیثیت میں حل کرتے ان کی کپتانی اور ذاتی کارکردگی پر مستقبل میں بھی سوالات ہوں گے سو وہ اپنے آپ کو ابھی سے ذہنی طور پر تیار رکھیں کہ ”ایسے گھٹیا“ سوالات کا جواب انہیں مستقبل میں بھی دینا ہو گا۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر کرکٹر بڑے کھلاڑی تو ہیں لیکن عام زندگی میں انکا کردار مثالی نہیں ہے۔ کرکٹ بورڈ کی فائلیں اور بیرون ملک پیش آنے والے واقعات اگر تحریر کئے جائیں تو بڑے بڑے بت پاش ہو جائیں۔ بہتر یہی ہے کہ سب اپنا اپنا دامن بچائیں۔ اپنی عزت بچائیں اور چلتے جائیں۔ شاہد آفریدی کہتے ہیں کہ سب کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے۔کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ انگلینڈ میں ٹیم کی کپتانی چھوڑ کر واپس بھاگتے ہوئے انہیں ملک کا خیال کیوں نہیں آیا اس وقت ان کا احساس ذمہ داری کہاں سویا ہوا تھا۔ بہرحال یہ تنازعہ بھی ایک تلخ تجربہ تھا۔ اسے بھول کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے شاہد آفریدی نے ہمارے ایک دوست سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”غلطی ہو ہی جاتی ہے۔“
مائیک ایک حساس چیز ہے بد قسمتی سے ہمارے ہاں مائیک پر بولنے والوں کی اکثریت اس کی حساسیت سے نا واقف ہے۔ قومی 20، 20 ٹیم کے کپتان کا اصل کام کھیل کے میدان میں ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ ٹیم عالمی درجہ بندی میں مسلسل نیچے آ رہی ہے۔ نتائج حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ کھلاڑیوں کی انفرادی و اجتماعی کارکردگی ایسی نہیں کہ اچھے الفاظ میں یاد کیا جا سکے۔ پھر کوئی سوال کرتا ہے تو اس کو گھٹیا سوال کا طعنہ بھی سننا پڑتا ہے۔ اگر کرکٹرز کھیل کے میدان میں ملک کی خدمت کر رہے ہیں تو صحافی بھی اپنے شعبے میں ملک و قوم کی خدمت ہی کر رہے ہیں یہ وہی صحافی ہیں جو موسمی سختیوں کی پروا کیے بغیر گھنٹوں پریس کانفرنس کا انتظار کرتے ہیں۔ گھنٹوں تربیتی کیمپوں میں موجود رہتے ہیں۔ کھلاڑیوں کی ملک سے روانگی و واپسی پر میلوں کا سفر طے کر کے کوریج کے لیے پہنچتے ہیں۔ جب میڈیا سرپر بٹھاتا ہے اس وقت سب کو اچھا لگتا ہے جب آئینہ دکھاتا ہے تو اسے دشمن ملک کے میڈیا کا طعنہ دینے میں ایک منٹ نہیں لگایا جاتا۔ شاہد آفریدی کے بارے میں کئی ایسے سوالات ہیں جو ہم ملک کے وسیع تر مفاد میں یہاں نہیں رکھتے کیونکہ وہ ٹونٹی ٹونٹی ٹیم کے کپتان ہیں اور ورلڈ ٹونٹی ٹونٹی چیمپئن شپ کی تیاریوں میں مصروف ہیں اس لیے ادھار کیے دیتے ہیں بھی چاہے کہ وہ کوریج میں توازن پیدا کرے اور کھلاڑیوں کی غیر ضروری پروجیکشن اور پروٹیکشن سے ہاتھ اٹھا لے تو زیادہ بہتر ہے۔ در حقیقت میڈیا نمائندوں کے بارے میں شاہد آفریدی کی یہ سوچ صرف ایک فارمیٹ کے کپتان کی ہی سوچ نہیں ہے بلکہ یہ بورڈ کے ٹاپ آفیشلز کی سوچ کی آئینہ دار ہے۔ ایک ایسا کرکٹ بورڈ جو سٹیڈیم میں صحافیوں کی آزادانہ نقل و حرکت کا مخالف ہو وہاں یہ سب معمول کی بات ہے۔ صحافیوں کو اس حوالے سے مستقبل میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس کا ذکر آئندہ ضرور ہو گا۔ بہرحال میڈیا کے نمائندوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ خود کو غیر متعصب رکھیں۔ صحافتی اصولوں پر عمل درآمد کریں، اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ متحد ہو کر ردعمل دینے سے ہی آفیشلز اور کھلاڑیوں کے سخت رویے کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ویسے مصباح نے کہا ہے کہ میڈیا لڑواتا ہے۔ یہ عمر اکمل اور باسط علی کی تازہ لڑائی کیا میڈیا نے کروائی ہے۔ ڈریسنگ روم میں چلنے والے ”بلے“ کیا میڈیا چلواتا ہے۔ ذاتی فائدے کیلئے ساتھی کھلاڑیوں کی شکایتیں چیئرمین بورڈ کو کھلاڑی میڈیا کے کہنے پر لگاتے ہیں۔ ممنوعہ ادویات کھلاڑی میڈیا کے کہنے پر کھاتے ہیں۔ شعیب اختر اور محمد آصف کی لڑائی کیا میڈیا نے کروائی تھی‘ وسیم وقار کی لڑائی بھی کیا میڈیا نے کروائی تھی۔ حالیہ واقعہ سے صحافیوں‘ کھلاڑیوں اور بورڈ آفیشلز کو سبق حاصل کرنا چاہئے۔