قائم علی شاہ اور شازیہ مری کی تُک بندی
وزیراعلیٰ سندھ سائیں قائم علی شاہ نے فوراً بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا کہ کرپشن تو لیاقت علی خان کے دور سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ کہنا چاہتے تھے کہ خبردار جو کسی نے میرے لیڈر ’’صدر‘‘ زرداری کی کرپشن کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھا۔ ورنہ؟ ورنہ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ کرپشن تو قائداعظم کے دور میں بھی شروع ہو گئی تھی۔ یہ بات انہوں نے کسی اور موقعہ کے لئے چھوڑ دی تھی۔
لیاقت علی خان کے لئے دشمن بھی نہیں کہہ سکتا کہ خدانخواستہ وہ کرپٹ تھے۔ معاشی طور پر تو سائیں قائم علی شاہ بھی کرپٹ نہیں ہیں۔ ایک وزیر شذیر کہنے لگا ’’میں دیانت دار ہوں کہ بد دیانتی کا اہل نہیںہوں،، مگر کرپشن تو کئی قسم کی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کرپشن کی ساری قسمیں فراوانی کے ساتھ بلکہ روانی کے ساتھ موجود ہیں۔
قائم علی شاہ کے لئے ’’کرپشن فری‘‘ ہونے کی بات مخدوم احمد محمود نے بتائی۔ وہ بھی ایک افطار پارٹی میں جس کے لئے ہمیں عبدالقادر شاہین نے بلایا تھا۔ پوری سندھ پیپلز پارٹی میں ایک ہی آدمی کرپٹ نہیں ہے اور وہ سائیں قائم علی شاہ ہے۔ میں نے کہا کہ کرپشن کئی قسموں کی ہوتی ہے اور ایک کے علاوہ ساری ’’کرپشنیں‘‘ سائیں شاہ صاحب میں پائی جاتی ہیں؟ سب سے بڑی کرپشن یہی ہے کہ وہ تیسری بار وزیراعلیٰ سندھ ہیں۔
لیاقت علی خان قائد ملت تھے۔ ان کے مخالفین انہیں قائد قلت بھی کہتے تھے۔ مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی انہیں پسند نہ کرتے تھے۔ وہ وزیراعظم تھے اور گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کو کراچی ائرپورٹ پر جو گاڑی لینے گئی تھی وہ راستے میں خراب ہو گئی۔ گرمی کے دن تھے۔ قائداعظم پسینے میں شرابور پڑے رہے۔ انہیں ان کی افسردہ بہن محترمہ فاطمہ جناح پنکھا کرتی رہی۔ محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب مجید نظامی نے دیا تھا اور آج پاکستان کا ہر فرزند انہیں مادر ملت کہتا ہے۔
ایک بات میرے ذہن میں اچانک روشنی کی طرح کوندی کہ قائداعظم کے بعد لیاقت علی خان مادر ملت کو گورنر جنرل بناتے تو تاریخ کچھ مختلف ہوتی۔
ایک اپاہج گورنر جنرل غلام محمد نے قائداعظم کے جانثار ساتھی خواجہ ناظم الدین کی حکومت توڑ دی اور لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں شہید کر دیا۔ اس کے بعد سیاست اور جمہوریت کو مذاق بنا دیا گیا۔ چند دنوں میں حکومت بدل جاتی تھی۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے کہا میں ایک مہینے میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ آخرکار آرمی چیف جنرل ایوب خان نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور ملک میں فوجی حکومتوں کی ابتدا ہوئی۔ مگر فوجی اور سیاسی حکومتوں میں کوئی فرق نہ رہا۔
پیپلز پارٹی کی ہی شازیہ مری نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں ادبی شخصیت بننے کی غیر ادبی کوشش کی اور پنجابی کا ایک بے وزن شعر پڑھ دیا۔ جس کا ذکر سینئر صحافی نواز رضا نے پارلیمنٹ کی ڈائری میں کیا ہے۔ شازیہ مری نے غیر پارلیمانی رویہ اختیار کیا جو غیر ادبی بھی ہے۔ کسی خاتون سے پوچھا گیا کہ آپ کو ادب سے دلچسپی ہے۔ اس نے کہا۔ ہاں۔ میں بڑوں کا بڑا ادب کرتی ہوں۔ نواز رضا کو مشاہد اللہ خان بہت یاد آئے۔ وہ ہوتے تو شازیہ مری کی خبر لیتے اور ہمیں کوئی چٹ پٹی خبر دیتے۔ مشاہد صاحب شعر و سخن سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ سرسری ملاقات ہے۔ شازیہ مری نے پنجابی کے وزن سے محروم شعر پر اپنی تقریر ختم کی جسے ’’تُک بندی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔
تو کرم کر میرے سونہڑے ملک تے میرے خدا
اے شیشے دی شے ہے لوہاراں دے ہتھ آ گئی اے
شکر ہے کہ کسی نے پنجابی شعر پڑھا۔ یہاں تو بڑے بڑے شاعر بے وزن شعر پڑھتے ہیں اور بڑے دھڑلے سے پڑھتے ہیں۔ خوشی ہے کہ نواز رضا کو بے وزن شعر اچھا نہیں لگا مگر مجھے خوشی ہے کہ کسی نے پارلیمنٹ میں پنجابی شعر تو پڑھا۔
نوازشریف کبھی کبھی لطیفہ سنا دیتے ہیں۔ شہباز شریف خوبصورت اشعار پڑھتے ہیں اور وزن میں اچھے انداز میں پڑھتے ہیں۔ شازیہ مری کا تعلق کراچی سے ہے اور کراچی والے بے وزن شعر برداشت نہیں کرتے۔ میں حیران ہوں کہ انہوں نے پنجابی شعر کیسے پڑھ دیا۔ پنجابی کے بہت اچھے شاعر بابا نجمی ایک زمانے میں کراچی میں رہتے تھے۔ ان سے کبھی شازیہ کی ملاقات نہیں ہوئی۔ اب بابا نجمی لاہور میں آ گئے ہیں۔ میں نواز رضا اور شازیہ مری کو پنجابی کے نامور شاعر افضل احسن رندھاوا کے کچھ شعر سناتا ہوں۔ یہ اشعار دوسرے دوست بھی پڑھ سکتے ہیں۔
ہُن تے کجھ نہیں نظری آندا
ہور اک دیوا بال نی مائے
میں دریاواں دا ہانی ساں
ترنے پے گئے کھال نی مائے