” جنرل راحِیل شریف.... دُنیا کے بہترین جنرل!“
امیر جماعتِ اسلامی جناب سراج اُلحق مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ اگر جماعتِ اسلامی میں کسی مسلمان کو چھان پھٹک کے بعد رُکن بنائے جانے کا رواج نہ ہوتا تو مَیں کب کا اپنے لاکھوں ساتھیوں سمیت جماعتِ اسلامی میں شامل ہو چکا ہوتا۔ اِس کے باوجود مَیں امیر جماعتِ اسلامی کے نام کی مناسبت سے اُنہیں ”حق کا چراغ/ سورج“ سمجھتا ہُوں۔
”مسجد نبوی میں وزیراعظم کا وعدہ“
منگورہ میں جلسہ¿ عام سے خطاب کرتے ہُوئے جناب سراج اُلحق نے کہا کہ ”جماعتِ اسلامی اگر اقتدار میں آئی تو لٹیروں کا کڑا احتساب کر کے اُن سے قوم کی لُوٹی ہُوئی پائی پائی وصول کرے گی“ جماعتِ اسلامی اقتدار میںکب آئے گی؟
”مَیں انتظار کروں گا‘ تیرا قیامت تک!
خُدا کرے کہ قیامت ہو اور تُو آئے!“
جناب سراج اُلحق نے کہا کہ ”مَیں نے مسجد نبوی میں بٹھا کر وزیراعظم شریف سے پاکستان میں سُودی نظام کے خاتمے کا وعدہ لیا تھا لیکن انہوں نے وعدہ بُھلا دِیا۔ شاعر نے کہا تھا ....
”سبق ایسا پڑھا دِیا تُو نے
دِل سے سب کچھ بُھلا دیا‘ تُو نے
”جنرل راحِیل شریف.... دُنیا کے بہترین جنرل!“
چِیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف دُنیا کے 10 جنرلز میں سے بہترین جنرل ہیں یعنی سب جنرلز میں اعلیٰ‘ برتر اور بلند“ جنرل راحیل شریف کے اِس اعزاز کی خبر کی روشنی امریکی ادارے اے بی سی نیوز نے دُنیا بھر میں پھیلا دی۔ جنرل راحیل شریف کا یہ اعزاز پاکستان کے ہر محبّ وطن شہری کا اعزاز ہے۔ جنرل راحیل شریف پاکستان کے پہلے جنرل ہیں جِن کو یہ رُتبہ¿ بلند مِلا۔ شاعر نے کہا تھا کہ ....
”اِیں سعادت بزورِ بازو نیست
تانہ بخشد خُدائے بخشندہ!“
یہاں یہ معاملہ ہے کہ خُدائے بخشندہ نے پہلے جنرل راحیل شریف کو زورِ بازو عطا کِیا اور پھر بلندی پر پہنچایا۔ مرزا غالب نے....
”سوپشت سے ہے پیشہ¿ آبا سپہ گری“
کا اعلان کرکے اپنی بڑائی کی تھی لیکن جب کہا کہ ....
”کاش اِک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اُدھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا“
جنرل راحیل راجپوت ہونے کے حوالے سے ”سوپشت سے ہے پیشہ¿ آبا سپہ گری“ کا دعویٰ تو کر سکتے ہیں لیکن مزاج کے حساب سے موصوف زمین پر رہتے ہیں اور ”عرش سے اُدھر“ مکان کی خواہش نہیں رکھتے۔ انہوں نے تو زمین پر بھی ایک مکان میں رہتے ہُوئے اربوں روپے کے اپنے دو قیمتی پلاٹ دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہُوئے افسروں اور جوانوں کے ”شُہدا فنڈ“ کے لئے وقف کر دئیے۔ جنرل راحیل شریف کا یہ ”خندہ¿ چاکِ گریباں“ حضرتِ اسیر نے کہا تھا۔
”گوشِ دل سے ساکنانِ عرش سُن لیتے ہیں صاف
خندہ¿ چاکِ گریباں کیا بلند آواز ہے؟“
اِس طرح کے ”خندہ¿ چاکِ گریباں“ کی توفیق پاکستان کے کسی آرمی چیف کو نہیں ہُوئی۔ 21 دسمبر 2015ءکو ”نوائے وقت“ میں میرا کالم ”اشرافیہ کے آزمائش کار‘ آرمی چیف“ کے عنوان سے شائع ہُوا جِس میں مَیں نے لِکھا کہ ”جنرل راحیل شریف نے ”شہدا فنڈ“ کے لئے اربوں روپے کے اپنے دو قیمتی پلاٹ ہدیہ کرکے اشرافیہ (حکمران طبقہ‘ رﺅسا‘ اُمراءاور اعلیٰ طبقہ کے شریف لوگوں) کو چیلنج کرتے ہوئے انہوں نے اشرافیہ کے ”آزمائش کار“ کا کردار ادا کرنا شروع کر دِیا ہے“ جنرل راحیل شریف کی ”آزمائش“ پر قومی خزانہ لوٹنے اور ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے والے کہاں پُورا اُترسکتے ہیں؟۔
اے پی سی کی رپورٹ میں جنرل راحیل شریف کو ”قوم کا مسیحا“ کہا گیا ہے اور یہ بھی کہ اُنہوں نے قوم کو امن و آشتِی کی نوید سُنائی اور نہ صِرف فوج کی گرتی ہُوئی ساکھ کو پھر سے اوجِ کمال بخشا بلکہ کچھ اِس انداز میں دہشت گردی کے سوداگروں کے مقابل صف آراءکِیا کہ وہ قوم کی آنکھ کا تارا اور ہیرو بن کر عالمی برادری میں ایک معتبر مقام حاصل کر چکے ہیں“۔ رپورٹ میں پاکستان کے اندر اور باہر دشمنوں سے انتہائی مو¿ثر انداز میںنمٹنے اور دہشت گردی کے خلاف اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر جنرل راحیل شریف کو دُنیا کا بہترین کمانڈر قرار دِیا گیا۔
اے پی سی کے مطابق جنرل راحیل شریف کے بعد دوسرے نمبر پر امریکہ کے آرمی چیف مارٹن ڈمپسی، تیسرے نمبر پر چِین کے جنرل فینگ فنگ ہوئی، چوتھے نمبر پر روس کے جنرل والرے گراسیموف‘ پانچویں نمبر پر جمہوریہ ترکیہ کے جنرل ہولی سی اکار، چھٹے نمبر پر برطانیہ کے جنرل نک ہوفٹن، ساتویں نمبر پر جنوبی کوریا کے جنرل چون ، یون، ہی ہیں۔ بھارت کے آرمی چیف جنرل دلیر سنگھ آٹھویں نمبر پر ہیں۔ جاپان کے جنرل کاستو توشی کا وانو اور جرمنی کے وولکرو نویں اور دسویں نمبر پر ہیں۔
سویلین چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو سمیت ہر چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کو ”قائدِ انقلاب“ اور ”قوم کا مسیحا“ قرار دیا گیا اور کئی ”جمہوری لیڈروں کو بھی“ لیکن وہ اقتدار سے الگ ہو کر زندہ درگور ہو گئے۔ مرنے کے بعد بھی اُن کا کوئی نام نہیں لیتا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو پیپلز پارٹی کا ”ووٹ بنک “ ہے لیکن دیوالیہ۔ قائداعظم اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو دولت سے دلچسپی نہیں تھی۔ قائداعظم نے اپنی ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا۔
مادرِ مِلّت محترمہ فاطمہ جناح نے قیام پاکستان کے لئے جدوجہد کی تھی لیکن قائدِاعظم نے اپنی عظیم بہن کو مسلم لیگ اور حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ لیاقت علی خان کے بچّے عام سکولوں میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے دِلّی میں اپنا بنگلہ‘ پاکستان ہائی کمشن کو ہدیہ کر دیا تھا۔ اس بنگلے کی قیمت آج 6 ارب روپے ہے۔ قائدِاعظم اور لیات علی خان کے نقشِ قدم پر چلتے ہُوئے حکمران طبقہ اور سابقہ حکمران‘ جِن پر بدعنوانیوں کے الزامات / مقدمات ہیں، اگر اپنی دولت کا کچھ حِصّہ قومی خزانے میں جمع کرا دیں یا ”شرافت سے“ غریبوں میں بانٹ دیں تو شاید اُن میں سے بھی کوئی ”قوم کا مسیحا / ہیرو“ بن جائے۔ علاّمہ اقبال نے کہا تھا کہ ....
” ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے
بڑی مُشکل سے ہوتا ہے‘ چمن میں دِیدہ وَر پیدا“
علاّمہ اقبال زندہ ہوتے تو پاکستان کے مایہ¿ ناز سُپوت جنرل راحیل شریف کو ”دِیدہ وَر“ تسلیم کر لیتے۔ کسی ”جمہوریت پسند فلسفی“ نے کہا تھا کہ ”بدترین جمہوریت بھی، بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے“ لیکن اُس ”جمہوریت پسند فلسفی“ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ کسی مُلک کے ”مفلوک اُلحال جمہور“ کتنے سو سال تک ”بدترین جمہوریت“ کی چکی میں پِسنے کے بعد اُس سے نجات کے لئے مالک اُلملک سے دعائیں مانگیں؟ فی الحال ” قوم کے مسیحا“ اور ”ہیرو“ جنرل راحیل سے پاکستان پیپلز پارٹی کو خطرہ ہے۔ سابق صدر زرداری 16 جون کی تقریر میں ”جرنیلوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے“ کا اعلان کر کے دُبئی چلے گئے اور اب وہ اپنے بہنوئی مِیر منوّر تالپور کے خلاف کرپشن کی تحقیقات پر وزیراعظم نواز شریف پر برس رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف سیّد خورشید شاہ نے فرمایا کہ ”جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنی مرضی سے اپنی مدت ملازمت میں توسیع مانگی تھی لیکن جنرل راحیل شریف نہ مانگیں“ سوال یہ ہے کہ ”اگر وزیراعظم نواز شریف خود ہی جنرل راحیل شریف کو "Extention" دینا چاہیں تو کیا یہ اُن کا صوابدیدی اختیار نہیں؟