فیس بک پر اور فیس ٹو فیس زیادتیاں
صرف آج کے نوائے وقت میں بے آسرا اور غریب عورتوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتیوں کی خبریں ہیں۔ بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ بھی جنسی زیادتی اور تشدد کے کئی واقعات ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ خبر یہ ہے کہ فیس بک پر دوستی کا دھوکہ دے کے اعتبار بڑھایا گیا اور نوجوان کو دبئی بلا کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اپنے دوستوں کو بھی اس شرمناک دعوت میں شریک کیا گیا۔ پاکستان سے دبئی میں گھنائونا کاروبار کرنے والے رانا قیصر ندیم نے 20برس کے نوجوان کو پردیس میں بدنصیبی بے عزتی کے انجام سے دوچار کر دیا۔
ابھی تک پرچہ بھی درج نہیں ہوا۔ درخواست کے باوجود تھانہ سبزہ زار کے پولیس والے قانونی پیچیدگیوں میں معاملے کو الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں برادرم امین وینس سی سی پی او لاہور سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ذاتی طور پر دلچسپی لے کر معاملے کو خود دیکھیں اور مظلوم بچے کی دادرسی کریں۔ وہ ذاتی طور پر بہت دل والے آدمی ہیں۔ انہوں نے لاہور میں جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کرنے کے لئے بہت اچھی اور موثر منصوبہ بندی کی ہے۔ اس حوالے سے مساجد کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔ تاکہ عام لوگوں اور پولیس والوں کے درمیان اعتبار بڑھایا جائے۔ اس سے پہلے کہ رانا قیصر ندیم واپس دبئی چلا جائے اسے گرفتار کر لینا چاہئے تاکہ وہ ملک کو بدنامی سے مزید دوچار نہ کرے۔
فیس بک پر دوستیوں کے سلسلے کتنے برے انجام کی طرف بڑھتے ہیں۔ میں فیس بک کے خلاف نہیں ہوں لوگ اس طرح پوری دنیا کو اپنی آنکھوں کے سامنے پاتے ہیں۔ اس طرح علمی اور سماجی طور پر بھی تربیت کا اہتمام ہو سکتا ہے مگر ہمارے ہاں اسے صرف روابط بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے ضرورت رشتہ کے لئے بھی فیس بک سے استفادہ کیا جاتا ہے اور دوستیاں اختیار کی جاتی ہیں اور ایک شرمناک اور المناک انجام کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں فیس بک کو وقت گزاری کے لئے ایک مشغلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
میں تو فیس ٹو فیس کا قائل ہوں۔ مگر فیس بک کی اہمیت کا قائل ہوں۔ اسے قبضہ مافیا اپنے مذموم مقاصد کے لئے اختیار نہ کرے۔ ظلم و ستم کے لئے جرائم پیشہ اور قبضہ مافیا نجانے کیسے کیسے طریقے اپناتے ہیں۔ رانا قیصر ندیم کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔ جو دھندہ اس نے دبئی میں شروع کر رکھا ہے اس سے دوست ملک دبئی کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میری اس سلسلے میں دبئی کی انتظامیہ سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی اقدامات کرے اور اس طرح کے جرم اور ظلم کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کرے۔ یہ ایک باقاعدہ کوئی گروپ ہے جو دونوں ملکوں کے لئے ذلت اور اذیت کا باعث ہے۔
دبئی میں یہ واردات کرنے والے موجود ہیں اس حوالے سے تحقیقات ہونا چاہئیں اور اس کا سلسلہ پاکستان تک پھیلا دینا چاہئے۔ آج کل رانا قیصر ندیم پاکستان لاہور میں ہے۔ اور اس کا ساتھی اسلام آباد سے نارتھ سٹار ٹریول اینڈ ٹریڈنگ ایجنسی کا مالک عمران جاوید چودھری دبئی میں موجود ہے۔ اسے بھی نوجوان کے ساتھ منہ کالا کرنے کے لئے رانا قیصر ندیم نے اپنے ساتھ شریک کیا تھا۔ شاہین ائرلائن کا ریٹرن ٹکٹ بھی عمران جاوید چودھری نے بھجوایا تھا۔ رانا قیصر ندیم ائر ٹریولنگ ٹورز کے کاروبار سے منسلک ہے۔ رانا قیصر نے نوجوان کو معاشی ابتری اور بدامنی کے خدشات کی ہوا دے کے اور سنہرے مستقبل کے خواب دکھا کے آمادہ کیا کہ وہ دبئی آ جائے تو بہت کم عرصے میں بہت دولت کما سکتا ہے۔ زوہیب ناپختہ عمری کی وجہ سے دھوکے میں آ گیا اور ایک قیامت کے نرغے میں پھنس گیا۔
نوجوانوں اور لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ دولت ہی سب کچھ نہیں ہے کہ اس کے لئے کوئی اپنا سب کچھ دائو پر لگا دے۔ اپنے وطن عزیز پاکستان میں رہتے ہوئے مشکلات کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ایک زمانے میں دبئی چلو دبئی چلو کا نعرہ مقبول ہوا تھا۔ مگر اب بات نالہ و زاری تک پہنچ گئی ہے۔ ابھی تو نوجوان کی عزت خراب کی گئی، اسے جان سے بھی مارا جا سکتا تھا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ یہ خبر بھی دبئی سے آئی ہے کہ وہاں اس واقعے کی روشنی میں جنسی درندوں پر مشتمل بااثر مافیا کے بارے میں تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ یہ تاثر پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ دبئی پولیس اور پنجاب پولیس میں فرق ہے؟ مجھے امید ہے کہ لاہور پولیس اس معاملے میں نتیجہ خیز اقدامات کرے گی۔ اس حوالے سے کچھ لوگ شہباز شریف سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کی وجہ سے ایک اچھے منتظم کے طور پر معروف ہیں۔ وہ اس حوالے سے خاص طور پر دلچسپی لیں گے۔ مجھے امید ہے کہ لاہور پولیس کے چیف سی سی پی او امین وینس بھی سرخرو ہوں گے۔ وہ دبئی اور لاہور کے درمیان درندگی پھیلانے والے لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔
بدقسمت نوجوان زوہیب نے کہا کہ مجھے انصاف نہ ملا تو میں خود اپنے خلاف درندگی کا بدلہ لوں گا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تم کمزور اور غریب ہو کیسے بدلہ لو گے؟ تو اس نے بڑے جذبے سے کہا کہ میں اپنے آپ سے بدلہ لوں گا۔ صوبائی اسمبلی کے سامنے عوامی نمائندوں کو پکار کر خود کو آگ لگا لوں گا۔ مجھے امید ہے کہ اس کی حرارت ان تک ضرور پہنچے گی۔ اس کا بھی اثر نہ ہوا تو یہ فریاد عوامی طور پر بلند ہو گی اور ایک آتش فشاں سب کچھ برباد کر دے گا۔
بدنام زمانہ رانا قیصر ندیم اور عمران جاوید چودھری کا تعلق ائرفورس سے تھا۔ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے یہ ملازمت چھوڑنا پڑی۔ اور اب بھی اپر سروس سے متعلق کاروبار میں ملوث ہیں اور اسے ایک گھنائونا کاروبار بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ جبکہ زوہیب کے لئے ڈاکٹرز نے تصدیق کر دی ہے۔ اب یہ تصدیق باقی ہے کہ درندوں کو انجام تک پہنچا دیا گیا ہے۔ نوائے وقت میں آج کی ہی خبر ہے کہ شرقپور میں ایک معذور لڑکی کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ شیخوپورہ کی ایک خاتون، عارف والا میں چھ برس کے ایک بچے، فیصل آباد کے دو نوعمر لڑکوں اور ڈھامکے کی 20برس کی ذہنی طور پر فاترالعقل فرحت بی بی ایک گائوں چار سالہ کی ایک گھریلو خاتون مدینہ ٹائون کے 10برس کے ایک لڑکے سے 4مسلح افراد نے اور چک جھمرہ کے آکاش کو مقبول نے زبردستی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
ان وارداتوں پر نظر ڈال کے اپنے آپ سے بھی نظریں ملانے کو دل نہیں کرتا۔ ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے اور ہم یورپ امریکہ پر تنقید کرتے ہیں اور اپنی اخلاقی برتری کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ ڈیفنس کی ایک باوقار خاتون زینب رضوان نے مجھے بتایا کہ یورپ اور امریکہ میں بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں جو کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ یہ بہت شرمناک اور دردناک ہے۔ اس حوالے سے ہمیں قومی سطح پر سوچ بچار کرنا ہو گی۔ اخلاقی سطح پر یہ ہماری بہت بڑی ناکامی ہے اور بدنامی بھی ہے۔
میرے خیال میں لاہور سے ایک لڑکے کو بلا کر حیوانیت کا دبئی میں مظاہرہ ہمارے لئے ایک امتحان کی طرح ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس ذلت و خواری سے کیسے نکلتے ہیں۔