تھر میں مرتے ہوئے بچے اور بلی کے مریض بچے
لاہور میں آصفہ بھٹو زرداری کی بلی اور بلی کے بچے کو ٹھنڈ لگ گئی تو انہیں فوری طور پر ہسپتال بھجوایا گیا۔ جبکہ سندھ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران تھر میں غذائی قلت سے کئی بچے مر گئے انہیں تو فوری طور پر اچھے ہسپتال میں نہیں پہنچایا جاتا۔ تھر میں نام نہاد ہسپتال ہیں۔ وہاں نہ ڈاکٹر نہ نرسیں نہ دوائیں؟ کبھی بلی کے بچے اتنی بے بسی میں نہ مرے ہوں گے جیسے تھر میں انسان کے بچے؟ بے بسی اور بے حسی برابر برابر کیوں؟
وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کہتے ہیں ایک دن کا بچہ مر گیا تو کیا مجھے اس کے لئے الہام ہو۔ حکومتوں نے انٹیلی جنس ایجنسیاں بنائی ہوئی ہیں۔ انہیں یہ تو پتہ چل جاتا ہے کہ کون ان کی حکومت پر تنقید کرتا ہے۔ کون ان کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ سیاست اور سازش میں فرق مٹ گیا ہے۔ سیاستدان انٹیلی جنس سے الہام کا کام لیتے ہیں۔ یہ الہام اکثر ابہام میں بدل جاتا ہے۔ اسی خبر میں یہ بھی خبر ہے کہ تھر میں مزید پانچ بچے جاں بحق ہو گئے ہیں۔ اب تک تعداد 30 سے بھی بڑھ گئی ہے۔ پچھلے برس غذائی قلت سے سینکڑوں بچے مر گئے تھے۔ ہر سال یہ ظلم ہوتا ہے۔ یہ قدرتی آفات نہیں ہیں یہ سراسر حکومت کی نا اہلی اور مجرمانہ غفلت ہے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوئی ہے۔ اب تک کوئی وزیر شذیر اور افسر وغیرہ وہاں نہیں گئے۔ پچھلے برس سائیں شاہ صاحب تھر کے علاقے میں گئے تھے۔ اخبارات میں اس کا چرچا ہوا۔ وہاں کئی قسم کے کھانوں کا لنچ ہوا۔ بھوکے ننگے بچوں کی سسکیوں کے درمیان دعوتیں اڑائی گئیں۔ شاہ صاحب کو اس موقع پر یاد آگیا تو وہ یہ تذکرہ نہ کرتے تو کیا حرج تھا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میرے خلاف ہوتے ہیں۔ فیصلے کیوں خلاف ہوتے ہیں؟ کچھ تو غلط کیا جاتا ہے کہ فیصلے خلاف ہوتے ہیں۔ کرپشن کے خلاف کارروائی کے نام پر سندھ پر حملے کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے سندھ حکومت کے لوگوں کے خلاف کرپشن کے تحت کارروائی کے بہانے سے سندھ کیلئے صوبائیت پھیلانے کی مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی کرپشن کا کیا تعلق صوبہ سندھ سے ہے اور شرجیل میمن باہر کیوں بھاگ گئے ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری بہت تند و تیز دفاعی اداروں کے خلاف بیان دینے کے بعد دبئی میں دربار لگا کر بیٹھے ہیں۔ وہ بیرون ملک سندھ حکومت کو بلاتے ہیں۔ جس میں سائیں قائم علی شاہ بھی ہوتے ہیں شاہ جی نے کہا کہ پہلے فیصلے بولتے تھے اب جج خود بولتے ہیں عدلیہ پر ان کی بے جا اور بے محل تنقید پر احتجاجاً دو ججز تقریب سے اٹھ کر چلے گئے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سائیں شاہ جی نے ایک معصوم بچے کی موت پر بہت ظالمانہ بات کی ہے کہ ایک بچہ ماں کی گود میں بھی مر جائے تو الزام ہم پر لگا دیا جاتا ہے۔ شاہ صاحب نے یہ بات کئی بار سنی ہو گی۔ یہ بات اب عام ہے اور ہمارے لوگ اپنی تقریروں میں کوٹ کرتے ہیں۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کوئی کتے کا بچہ بھی دریائے فرات کے کنارے بھوک سے مر جائے تو میں اس کیلئے ذمہ دار ہوں۔ بلی کے بچے کی ذمہ داری آصفہ پر ہے تو انسان کے بچے کی ذمہ داری کس پر ہے؟ یہاں تو کوئی انسان کا بچہ ماں کی گود میں مر جائے تو اس کیلئے بہت بے اعتنائی سے سندھ کے حکمران بات کرتے ہیں۔ جس جگہ ماں کی گود بھی غیر محفوظ ہو جائے تو وہاں کیا چیز محفوظ ہو سکتی ہے۔ یہاں ماں کی گود بھی گور بن گئی ہے۔ قبر اور قلب میں کوئی فرق نہیں رہا تو سائیں قائم علی شاہ یا کسی بھی حکمران کو حکومت کرنے کا حق ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ چور دروازے سے حکومت میں آنے کیلئے جمہوریت کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ جو لوگ کھلے دروازے سے آتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے اقتدارکا دروازہ کھلم کھلا ہونا چاہیے۔ جمہوریت کو سیاستدانوں نے جس طرح استعمال کیا ہے۔ اسے صرف استحصال کہا جا سکتا ہے۔ جمہوریت اور حکومت میں کوئی فرق نہ رہا۔ جمہوری حکومت کی بین الاقوامی تعریف یہ ہے ’’گورنمنٹ آف پیپلز بائی دی پیپلز فار دی پیپلز‘‘ (لوگوں کی حکومت لوگوں کے ذریعے اور لوگوں کیلئے) ایک جملے میں تین بار پیپلز کا لفظ آیا ہے تو پیپلز پارٹی والے سوچیں کہ وہ جمہوریت کو کس طرح کی حکومت سمجھتے ہیں؟
سائیں قائم علی شاہ سنجیدگی کے ساتھ ایسی بات کر جاتے ہیں کہ آدمی نہ چاہے تو بھی اس کی ہنسی نکل جاتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ سندھ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے گٹروں سے پانی بہایا جا رہا ہے۔ گٹروں کے پانی سے تکلیف میں عام لوگ ہیں۔ ان کیلئے سڑکوں پر چلنا دشوار ہو گیا ہے۔ سائیں کو اس گندے پانی سے کیا تکلیف ہے؟ اور ان کی حکومت اتنی کمزور ہے کہ اتنی سی بات سے غیر مستحکم ہو جاتی ہے تو وہ یہ حکومت چھوڑیں اور گھر جائیں۔ ایسی حکومت تو شرمندگی ہے۔ لوگوں کی زندگی شرمندگی بن گئی ہے۔
آصفہ بھٹو زرداری اپنی بلی اور بلی کے بچوںکو ہوائی جہاز میں لے کر آتی ہیں اور کہتی ہیں کہ بحریہ ٹائون سے ملی ہیں۔ وہ آوارہ پھر رہی تھیں۔ کیا وہ لاہور میں آوارہ بلیاں پکڑنے کیلئے آئی تھیں۔ اصل میں وہ بلیوں کو بھی لاہور کی سیر کرانے آئی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس کی دیکھ بھال کی جانی چاہیے مگر انسانوں کے بچوںکی طرف بھی کچھ توجہ کرنا چاہیے۔
میرے خیال میں بلاول بھٹو زرداری کو تھر کے علاقے میں جانا چاہیے اور سندھ حکومت کے مبینہ اقدامات کی نگرانی کر کے سندھی بچوں، پاکستانی بچوں کی زندگی کو محفوظ بنانا چاہیے۔ اس کیلئے سلامتی کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ بچوں کی سلامتی کیلئے ہر ممکن کارروائی کرنا چاہیے۔ قائم علی شاہ اور دوسرے وزیر شذیر اور افسران بھی ان کیساتھ ہوں۔ اس موقع پر ایک شعر بلاول بھٹو زرداری سائیں شاہ صاحب اور سب دوستوں کی خدمت میں عرض ہے…؎
قتل طفلاں کی منادی ہو چکی ہے شہر میں
ماں مجھے بھی صورت موسی بہا دے نہر میں
یہ تو فطری اور تاریخی اصول ہے کہ ہر فرعونے را موسی۔ ہر فرعون کیلئے بچوں میں کوئی موسیٰ ہوتا ہے جو ظلم و ستم کا انتقام لیتا ہے۔ تھر میں بچے مر رہے ہیں میں اسے قتل کہتا ہوں۔ اس قتل کی FIR فطرت کی آنکھوں میں رجسٹر ہو رہی ہے۔ اس کا فیصلہ ہو گا۔ فرعونوں کو فیصلے پر عملدرآمد کے لئے تیار رہنا چاہیے۔