شام میں داعش کے حملے 250 فوجی اور جنگجو مارے گئے حکومتی ذرائع
اقوام متحدہ (آئی این پی/اے پی پی) شام کے علاقے دیرانرور میں داعش نے حملہ کر کے 250 شامی فوجیوں اور جنگجوئوں کو ہلاک کردیا، سیرین آبزرویٹری کے مطابق جہادی گروپ نے متعدد علاقوں کا قبضہ کرلیا، صوبائی دارالحکومت کے 60 فیصد علاقے پر کنٹرول ہے۔ حکومتی ذرائع نے تصدیق کی 250 افراد مارے گئے، حکومت کے حامی جنگجو اور ان کے خاندان والے شامل ہیں بیگیلیااور ایاش کے علاقوں میں کارروائیاں کی گئیں بعض کے گلے کاٹے گئے، سیرین آبزرویٹری کے ترجمان نے کہا 60 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی، ذرائع کے مطابق دولت اسلامیہ کے جنگجوئوں نے شہریوں کو بھی قتل کیا ہے، فوج نے حملے پسپا کر کے متعدد جنگجو ہلاک کردیئے 6فوجی چوکیوں، 6 حملے ناکام بنا دیئے ہیں، داعش کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا، کئی ٹینک اور اسلحہ ڈپو پر قبضہ کرلیا، تصدیق نہیں ہوئی۔ اقوام متحدہ میں ایک چینی مندوب نے گذشتہ روز بین الاقوامی برداری پرزور دیا کہ شامی عوام کی مشکلات کا ازالہ کیا جائے ،انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی سیاسی حل ہی شام میں تمام متعلقہ مسائل کا حتمی راستہ ہے،اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب لایو جائی یی نے شام کے بارے میں سلامتی کونسل کے اجلاس کو بتایا کہ بعض محصور علاقوں کی آبادی کو خوراک اورادویات کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کا طرز بودوباش کے حالات حقیقی معنوں میں افسوسناک ہیں۔ لایو نے کہا کہ چین کو امید ہے چین کے لیے بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی امداد کا وعدہ کرنے والی کانفرنس آئندہ ماہ کے اوائل میں منعقد ہو گی اس سے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور چین تمام عطیات دینے والے ممالک پر زور دیتا ہے کہ وہ شامی عوام کی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لیے فراخدلی کا مظاہرہ کریں، نو مواقعوں اور مختلف چینلوں کے ذریعے اب تک چین نے شام اور علاقے کے دوسرے ممالک کو مجموعی طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 685 ملین یوآن (قریباً 104.34ملین امریکی ڈالر) مالیت کی امداد فراہم کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے پرتشدد انتہاپسندی کے خاتمہ کیلئے جامع اقدامات اورحکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زوردیا ہے۔ اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے داعش جیسی تنظیموں سے نمٹنے کیلئے دیرپا اور پائیدار بنیادوں پر جامع اقدامات اور حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ تمام ممالک کو اس ضمن میں قومی منصوبے بنانے چاہئیں اور صرف طاقت کے استعمال پر زور نہیں دینا چاہئے۔ کئی برسوں کے تجربے کے بعد یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مختصر نوعیت کی پالیسیاں ، ناکام قیادت، صرف سکیورٹی اقدامات پر توجہ اور انسانی حقوق کی پامالیاں پرتشدد انتہاپسندی کی بیخ کنی میں ناکام ثابت ہوچکی ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے بالغ نظری اور وژن کے تحت اقدامات کرنے ہوں گے، اس وقت صرف طاقت کے استعمال پر زوردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مشتبہ گروپس دشمن کے ہاتھوں میں کھیلتے جبکہ اسکے علاوہ لوگ بھی ایکدوسرے کیخلاف ہوجاتے ہیں۔ پرتشدد انتہاپسندی کے خاتمہ کیلئے ایک منصوبے کے خدوخال بھی پیش کئے جس میں پرتشدد انتہاپسندی کے خاتمے کیلئے کئی اقدامات تجویز کئے گئے ہیں جن میں تعلیم کے فروغ، انسانی حقوق سے آگاہی اورنوجوانوں کو شدت پسند تنظیموں میں شمولیت سے روکنے کیلئے اقدامات شامل ہیں۔ سیکرٹری جنرل نے مجموعی طور پر 79 اقدامات و سفارشات مرتب کی ہیں۔ پرتشدد انتہا پسندی کے تدارک کے لیے ٹھنڈے دماغ اور منطقی سوچ کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق سوچے سمجھے بغیر پالیسیاں مرتب کرنے سے لوگ ایک دوسرے کے درپے ہو چکے ہیں اور معاشرے کے مرکزی حصے سے کٹے ہوئے گروہ دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھلونے بن چکے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پرتشدد انتہا پسندی کے خاتمے کے پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے بائیس صفحات پر مبنی ایک رپورٹ میں واضح کیا کہ 100 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 30 ہزار غیرملکی انتہا پسند شام، عراق، لیبیا، یمن اور افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں میں مصروف ہیں۔