پاکستان میں باڈی بلڈرز کا کوئی مستقبل نہیں‘ مراعات صرف کرکٹ کیلئے ہیں : سلمان احمد
لاہور(سپورٹس رپورٹر)سلمان احمد جب گزشتہ سال لاس ویگاس میں مسل مینیا ورلڈ باڈی بلڈنگ ٹائٹل جیتنے والے پہلے پاکستانی بنے تو ہال میں اکیلے تھے کیونکہ وہ حریف باڈی بلڈرز کے برعکس مینیجرز، کوچز اور پروموٹرز کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ اب 25 سالہ سلمان ملک واپس آنے کے بعد دو راہے پر کھڑے ہیں۔ حکومت کی جانب سے مالی معاونت نہ ہونے اور سپانسرز کی عدم دلچسپی کی وجہ سے سلمان کو طے کرنا ہے کہ آیا وہ اپنے تابناک کیریئر کو خیر آباد کہہ دیں یا پھر پاکستان چھوڑ دیں۔ پاکستان میں باڈی بلڈر کا کوئی مستقبل نہیں۔ بھارت انہیں اپنے مختلف شہروں میں سیمیناروں سے خطاب کیلئے مدعو کرنے پر غور کر رہا ہے۔ پاکستان میں اب تک کسی افسر نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ پاکستان میں صرف کرکٹ کھلاڑیوں کو شہرت ملتی ہے جبکہ دوسرے کھیلوں کے پلیئرز توجہ اور مالی معاونت سے محروم رہتے ہیں۔حکومت میں کسی نے مجھے مبارک باد کا ایک پیغام تک نہیں بھیجا۔ سلمان نے انکشاف کیا کہ انہیں امریکہ اور دوسرے یورپی ملکوں سے کچھ ’پرکشش آفرز‘ آئی ہیں لیکن یہ آفرزقبول کرنے کیلئے انہیں اپنا گھر اور ملک چھوڑنا پڑے گا۔میں آئندہ جیت کر کبھی پاکستان کا جھنڈا نہیں لہرا سکوں گا۔ کچھ عالمی سپانسرز محض پاکستان کا نام سننے پر ہی (سیکیورٹی وجوہات پر) بھاگ گئے۔ وہ یہاں آنے سے بہت خوف زدہ ہیں۔ میں انہیں بتاتا ہوں کہ لاہور محفوظ شہر ہے لیکن وہ مانتے نہیں۔ سلمان 2014 میں میامی اور لاس ویگاس میں منعقدہ ایونٹس میں شرکت کرنے لگے۔کئی مہینوں کی سخت مشقت کے بعد انہوں نے صرف اور صرف اپنی لگن اور عزم کی بنیاد پرگزشتہ سال مسل مینیا میں دنیا بھر سے آئے تقریباً 600 باڈی بلڈرز کا مقابلہ کیا۔’کوریا، امریکا اور یورپ سے آئے باڈی بلڈرز کی پوری پوری ٹیمیں تھیں۔ انہیں مینیجرز، کوچز اور میڈیا پروموٹرز کی سہولت مہیا تھی۔ صرف میں وہاں اکیلا تھا۔سلمان کی والدہ ساجدہ یاسین نے بتایا کہ لاہور سے انٹرنیٹ پر لائیو اپنے بیٹے کو ٹرافی کے ساتھ دیکھ کر ان کی آنکھیں اشکبار تھیں۔سلمان نے اب اپنی نگاہیں جون میں میامی میں ہونے والے مسل مینیا پرو کیٹگیری جیتنے پر مرکوز کر رکھی ہیں۔سلمان کیلئے شائد کچھ امید باقی ہے کیونکہ پنجاب سپورٹس بورڈ کے سربراہ عثمان انور کہتے ہیں کہ حکومت سلمان کی کامیابیوں سے نا آشنا تھی۔اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ وہ لاس ویگاس جا رہے ہیں تو ناصرف ہم ان کی مالی مدد کرتے بلکہ، ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تربیت اور تکنیکی مہارت بھی فراہم کرتے۔سپورٹس بورڈ نے اب سلمان کو مدعو کیا ہے اور ملاقات میں ساری تفصیلات جاننے کے بعد ان کی مدد کی جائے گی۔تاہم، سلمان کیلئے فیصلے کی گھڑی سر پر کھڑی ہے۔ میں اس شعبے میں ٹاپ پر جانا چاہتاہوں۔ مجھے بلا آخر فیصلہ کرنا ہے، لیکن یہ ایک انتہائی مرحلہ ہو گا۔