قانون اندھا ہے تو اندھے کیوں سڑکوں پر ہیں
میں آج چنداچھے جملے آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تھا مگر مجھے ایک نابینا ملا۔ وہ مجھے کہنے لگا کہ ہم ہڑتال کرنے پر مجبور ہوئے کہ ہمیں نوکریاں نہیں ملتیں میں نے اُسے کہا کہ نوکریاں تو آنکھوں والوں کو بھی نہیں ملتیں، میں نے اسے بتایا کہ میرے خیال میں جو دیکھ نہیں سکتے وہ لوگ وہ کچھ دیکھ لیتے ہیں جو نہیں دیکھ سکتے۔ علامہ اقبال نے کس کے لئے یہ شعر کہا تھا۔
ہے دیکھنے کا شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
نابینا افراد پر لاٹھی چارج نہ کیا گیا۔ غالباً یہ ہدایات شہباز شریف کی طرف سے تھیں۔ ورنہ پولیس کے آگے تو ہڑتال کرنے والے سب برابر ہوتے ہیں۔ انہوں نے لیڈی ٹیچرز کو سڑک پر بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا اور پھر ان کے مطالبات بھی مان لئے گئے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ مطالبات ٹھیک تھے۔
یہ کیوں ہے کہ لوگ خواتین و حضرات سڑکوں پر آئیں۔ مظاہرہ کریں نعرے بازی ہو۔ نعرے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے خلاف لگتے ہیں۔ افسران بالکل محفوظ رہتے ہیں سسٹم کو سامنے رکھا جائے اور ڈسپلن کی پابندی کی جائے تو معاملات احسن طریقے سے طے ہو جاتے ہیں۔
مظاہرین سے مذاکرات ہوتے ہیں تو پہلے کیوں مذاکرات نہیں ہوتے؟ یہ کیا روٹین ہے جو ہمارے دفتروں اور محکموں میں جاری ہے بلکہ جاری و ساری ہے۔؟
کیا نابینا لوگ بھیک مانگیں۔ انہوں نے تعلیم حاصل کی کیسے کر لی؟۔ ہم آنکھوں والے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ مجاہدہ ہے تو اب انہیں مظاہرہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ٹریفک صرف ان کے لئے بند نہیں ہوئی بلاول بھٹو زرداری کی وجہ سے بھی ٹریفک بلاک ہوئی بلکہ خراب ہوئی۔ بلاول کو دیکھنے کے لئے لوگ بے تاب ہوئے تو نابینا افراد کو مظاہرہ کرتے دیکھنے کے لئے بھی لوگ کھڑے ہوئے اور پھر کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ ان کا مقابلہ پولیس والوں سے خوب تھا۔ عام مظاہرین کا معاملہ تو اب ہمارے ملک میں پولیس والوں کے ساتھ لگا ہی رہتا ہے۔ یہ معاملہ بہت جلد تماشا بن جاتا ہے۔
تو کیا بلاول کا استقبال کرنے والے بھی کسی طرح سے نابینا ہیں۔ ان لوگوں کو بھی اپنے لیڈر کے لئے مظاہرہ ہی کرنا پڑتا ہے۔ نعرے لگائے جاتے ہیں اور بھنگڑے بھی ڈالے جاتے ہیں آنکھوں والے اندھے اسی موقعے پر نظر آتے ہیں۔ نابینا افراد زیادہ چالاک نکلے۔ انہوں نے میٹرو کے روٹ پر دھرنا دیا۔ انہیں معلوم تھا کہ اس طرح بات اوپر تک بہت آسانی سے اور بہت جلد پہنچ جائے گی۔ پولیس والے اور انتظامیہ اس سے ڈسٹرب ہوئی کہ بات اوپر چلی جائے گی مگر انہوں نے نابینا لوگوں کے ساتھ وہ سلوک نہ کیا جو وہ آنکھوں والے سے کرتے ہیں۔ یہ ہدایات بھی اوپر سے آئی ہیں افسران اور پولیس افسران ’’اوپر سے‘‘ کا بہانہ اپنے ناجائز اختیارات استعمال کرنے کے لئے بہت استعمال کرتے ہیں۔
نابینا افراد کے مظاہرے میں آخر کار پولیس کی سیاست کچھ کامیاب نظر آئی۔ رات ہوٹل میں گزارنے کے لئے وہ بہت سے نابینائوں کو لے گئے۔ انہوں نے شاید کبھی رات ہوٹل میں نہ گزاری ہو گی۔ آئندہ بھی ڈنڈے مارنے کی بجائے انہیں ڈنڈی مارنے کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ ورنہ پہلے دو چار موقعوں پر انہوں نے نابینا افراد کو بھی خوب مارا پیٹا۔ اس میں بھاگ دوڑ نہ تھی۔ بیچارے نابینا خواتین و حضرات فوراً ہی گر پڑے تھے۔ گرے پڑے خواتین و حضرات کو مارنے اور دبوچنے میں پولیس کے ’’شیر جوانوں‘‘ کو بڑا مزا آیا۔ چیخوں اور بددعائوں کا مشترکہ مظاہرہ کسی کے دل پر کوئی اثر نہ کر سکا۔
پولیس والے ایک شیر جوان نے اندھوں کو بری طرح مارتے ہوئے جو بات کی وہ معنی خیز تھی۔ تم اندھے ہو تو ہم دل کے اندھے ہیں تم معذور ہو تو ہم مجبور ہیں۔ تم اپنا فرض ادا کرو ہم اپنا فرض ادا کریں گے۔ مگر اس بار وہ یہ فرض کیوں نہیں ادا کر سکے۔ نابینا خواتین و حضرات کو اوپر والوں کا یعنی شہباز شریف کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے پولیس والوں کو اپنا ’’فرض‘‘ ادا کرنے سے روک دیا۔ اب نابینا افراد کے لئے کوئی خصوصی انتظام کرنا چاہئے۔ انہیں احترام سے خصوصی بچے اور خصوصی افراد کہا جاتا ہے۔ تو ان کے ساتھ برتائو بھی خصوصی کرنا چاہئے۔ یہ خاص لوگ ہیںجواپنے اثر و رسوخ اور رشتوں اور رابطوں کی وجہ سے خاص الخاص ہو جاتے ہیں اور پھر جائز ناجائز حق ناحق میں کوئی تمیز نہیں رہتی۔
ان خاص لوگوں کے لئے عام لوگوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں عام لوگوں کی طرف سے اپیل کر رہا ہوں کہ ہمارے اصل خصوصی لوگوں سے خصوصی سلوک کیا جائے۔ ان کی مدد کی جائے تاکہ ان کا دل رکھا جائے اور اپنی زندگی میں انہوں نے جو محنت کی ہے اس کا کوئی صلہ ان کو ملے۔
کہتے ہیں قانون اندھا ہوتا ہے تو اندھے کیوں سڑکوں پر ہیں۔ اندھوں کے لئے انصاف آنکھوں والوں کے لئے روشن چراغ کی طرح ہو گا جس کے بغیر اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آتا۔