بہترین سے بہترین ۔ کرنل جمشید ترین
کرنل جمشید ترین بہت خوشگوار دوست جیسے بزرگ تھے وہ 92 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ یہ عدد اسم محمدؐ کے عدد ہے۔ میں اس کی تشریح آگے چل کے کروں گا۔ آخری دنوں تک نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں اپنے دفتر آتے رہے۔ وہ وہیل چیئر پر ہوتے اور یوں ہر ساتھی کو مسکرا کر بوڑھی محبت سے دیکھتے۔ محبت بوڑھی نہیں ہوتی مگر کرنل صاحب کی محبت بوڑھی ہو کر بھی جوان تھی۔ جیسے وہ خود مرتے دم تک جوان رہے۔ جوانی احساس اور یقین کا نام ہے۔
وہ مجھ سے بڑی محبت کرتے تھے۔ نظریہ پاکستان کا ہر دوست یہی سمجھتا ہے شاہد رشید‘ ناہید عمران‘ نعیم احمد‘ سیف اللہ‘ ظہیر شیخ‘ عباس ملک‘ عثمان صاحب اور ہر صاحب اور میں خود یہ سمجھتا تھا کہ ان کی زندہ مسکراہٹ میرے لئے ہے۔ شاہد رشید سے وہ واقعی بہت پیار کرتے تھے۔ شاہد رشید نے بھی ان کی بہت خدمت کی۔ شاہد صاحب نے بتایا کہ چند سال پہلے کہنے لگے کہ مجھے خواب میں رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ہے۔ وہاں ایک آدمی اور تھا اس نے میرا تعارف کرایا کہ یہ کرنل جمشید ترین ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ اچھا آدمی ہے۔ تو شاہد رشید نے انہیں کہا کہ کرنل صاحب آپ کو سند مل گئی ہے۔ ایک برکت والی محفل کمرے میں ہی سجائی گئی یہاں ڈاکٹر مجید نظامی بھی موجود تھے۔ مرغوب ہمدانی نے نعتیں پڑھیں۔
کرنل صاحب حمید نظامی اور مجید نظامی یعنی نظامی برادرز کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ اب ان دیرینہ ساتھیوں میں کرنل امجد حسین زندہ ہے۔ اللہ انہیں سلامت رکھے۔ مشاہد حسین‘ مواحد حسین اور مجاہد حسین ان کے صاحبزادے ہیں۔ حمید نظامی‘ کرنل ترین اور کرنل امجد نے علامہ اقبال کے کہنے پر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن بنائی تھی۔ کئی بار ان کی ملاقات قائداعظم سے ہوئی۔ وہ 1940ء کی قرارداد پاکستان کے حوالے سے اہم اجلاس میں قائداعظم کے سامنے تھے۔ ان کی یہ تصاویر نظریہ پاکستان کی گیلری میں موجود ہیں۔ وہ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے اور چیئرمین تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ تھے۔ اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے لئے بورڈ آف گورنرز کے ممبر تھے۔ ان کا کمرہ شاہد رشید کے کمرے کے ساتھ تھا۔ دونوں کمرے ہمیشہ آباد رہتے اللہ شاہد رشید کو سلامت رکھے اور کرنل صاحب کی خوشبو ان کے کمرے میں ہمیشہ آباد رکھے۔
میں نے پہلے عرض کیا کہ وہ 92 برس کی عمر میں فوت ہوئے 92 کا عدد محمدؐ کا عدد ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ عجب بشارت والا اتفاق ہے کہ مملکت خداداد پاکستان سے رابطے کے لئے دنیا بھر سے 92 کا عدد نکلا ہے۔ جیسے لاہور کے لئے 042 ہے کراچی کے لئے 021 اسلام آباد کے لئے 051 ہے۔ میں پاکستان کو خطہ عشق محمدؐ کہتا ہوں۔
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
کرنل صاحب کے لئے بہت بڑا جنازہ تھا۔ ہزاروں لوگ شریک ہوئے چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد‘ علامہ احمد علی قصوری‘ ڈاکٹر رفیق احمد‘ عامر محمود‘ مجیب الرحمن شامی‘ علیم خان‘ ولید اقبال اور دوسرے کئی معروف لوگ جنازے میں شریک تھے۔ انہیں ان کے نامور اور خدمت گزار بیٹوں نے اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا۔ وہ اس سے پہلے کئی دفعہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہر وقت ہسپتال میں اپنے والد کی خدمت اور تیمار داری میں مصروف رہتے۔ شوکت ترین بہت بڑے بینکار ہیں اور عظمت ترین بھی بینکار ہیں۔ دونوں بھائی سلک بنک کے مالک ہیں۔ شوکت ترین نے نواز شریف کی خواہش پر حبیب بنک کی سربراہی سنبھالی اور اسے خسارے سے نکال کر فائدے میں ڈال دیا۔
’’صدر‘‘ زرداری نے انہیں ملک کے بربادخزانے کا انچارج بنایا تو شوکت ترین نے چند دنوں میں اسے آباد کر دیا شوکت ترین نے ٹیکس کے طریق کار اور دائرہ کار کو بہتر کرنے کی تجاویز دیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے ذہن میں ملک کی بھلائی کا سودانہ پڑا تو شوکت ترین نے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے تنخواہ لی نہ گھر لیا نہ کوئی اور سہولت لی۔ اپنے عظیم اور پارسا والد کی ہدایت کے مطابق رزق حلال کو اپنایا۔ آخری عمر تک کرنل صاحب صوم و صلٰوۃ کے پابند رہے۔ رزق حلال کو اپنے لئے نعمت بنایا۔ ان کے والد تحصیل دار کے طور پر مکمل ایمانداری سے ملازمت کرتے رہے۔ رزق حلال کا یہ سلسلہ کرنل صاحب کی اگلی نسلوں تک جاری و ساری رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنی اولاد کی فرماں برداری اور خدمت گزاری نصیب ہوئی۔ بیٹوں نے خدمت کا حق ادا کر دیا۔ اس کی مثال ہمارے ہاں کم کم ملتی ہے۔
کرنل صاحب نے ہر کہیں بہت صداقت اور جرات کے ساتھ بہت بے باکی سے بات کی۔ خوف خدا ہی ان کے لئے زندگی بھرکا اثاثہ تھا۔ اللہ نے انہیں ان کے بیٹوں اور خاندان والوں کو بہت کچھ دیا۔ کرنل صاحب نے بہت مخیر اور دردمند انسان کا مزاج پایا تھا۔ 1971ء میں ڈھاکے میں تعینات تھے۔ بھارت کے جنگی قیدی ہوئے۔ بھارتی حیران تھے کہ کتنے اچھے دل والے لوگ پاکستان کے پاس ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے آدمی کیوں نہیں؟ سینکڑوں مستحق لوگوں کو وظائف دئیے۔ کئی بیوگان عورتوں کے گھروں کی کفالت کی۔ گنگا رام ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر تھے تو لوگوں کا مریض ہونے کو جی چاہتا تھا کہ اس طرح کچھ وقت کرنل صاحب کے پاس رہنے کا موقع ملے گا۔ یہاں صحت و کامیابی کے علاوہ بھی جو کچھ ملتا تھا وہ صرف وہی جانتے تھے جن کو ملتا تھا۔ ہر اچھے ترین سے پہلے یہ نام۔ کرنل جمشید ترین‘ بہترین اور بہترین۔
ایک شاندار بڑھاپا مجید نظامی کے پاس تھا اور ایک شفیق بڑھاپا کرنل صاحب کے آس پاس رہتا تھا۔ شوکت ترین کے لئے جب سازشی لوگوں نے جھوٹی اور مصنوعی کہانیاں عام کیں تو کرنل ترین بہت بے قرار ہوئے مگر بے قراری میں بھی ایک مطمئن اور شکر گزار بندے کو سرشاری میں دیکھا گیا۔ میرے لئے یہ بیان کرنا بھی ایک نیکی اور حدیث نعمت کی طرح ہے۔ مجھے کرنل صاحب نے بلا کر سرائیکی زبان میں کہا کہ میرے بیٹے کے لئے سچی بات لکھو۔ تم بھی میرے بیٹے ہو۔ میں نے کالم لکھا کہ یہ اظہار نعمت بھی مجھے نوائے وقت اور مجید نظامی نے عطا کیا ہے۔ میں اپنے قلم کو گواہ بنا کے کہتا ہوں کہ میں نے ہمیشہ سچ لکھنے کی کوشش کی ہے۔ غلطی ہو سکتی ہے غلط فہمی نہیں ہو سکتی۔ کرنل صاحب ہمیشہ اس کا ذکر کرتے ہیں۔ میںہمیشہ ان کا شکریہ ادا کرتا کہ مجھے ان کے لئے لکھنے کی سعادت ملی ہے۔ میں آج بھی اس خاندان کا خادم ہوں کہ یہ سچے اور پاکستان دوست دردمند لوگوں کا گھرانہ ہے۔