باچا خان یونیورسٹی اور اے پی ایس حملے میں کئی طرح کی مماثلت
چارسدہ (نیٹ نیوز) باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والے دہشت گردوں کے مذموم حملے اور اے پی ایس پر ہونے والے حملے میں کئی طرح کی مماثلت پائی گئی ہے۔ علم کے دشمنوں نے باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کیا، حملے کے لئے دہشت گرد عقبی راستے سے یونیورسٹی میں داخل ہوئے، دہشت گردوں نے اس سے پہلے بھی تعلیمی ادارے کو نشانہ بنایا، اے پی ایس حملے میں بھی دہشت گردوں نے مذموم کارروائی کے لئے عقبی راستہ چنا۔ باچا خان یونیورسٹی اور اے پی ایس دونوں کے عقب میں رہائشی گائوں موجود ہیں۔ اے پی ایس میں آڈیٹوریم میں میڈیکل ٹریننگ دی جا رہی تھی جبکہ باچا خان یونیورسٹی میں باچا خاں کی برسی کے موقع پر مشاعرہ ہوا تھا۔ ہوسٹل میں گھس کر طلبا کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ اے پی ایس میں میٹرک کے طلبا کو نشانہ بنایا گیا جبکہ باچا خان حملے میں ماسٹرز کے طلبا کی تعداد زیادہ ہے۔ دونوں تعلیمی اداروں میں پاک فوج کے جوانوں نے دہشت گردوں کو ہلاک کرکے تعلیمی ادارہ کلیئر کرایا، دونوں آپریشنز میں آرمی ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نگرانی کی گئی۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں ٹوئٹر کے صارفین باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے حملے کا گذشتہ سال آرمی بپلک سکول پشاور میں ہونے والے حملے سے موازنہ کرتے رہے۔ جوں جوں حملے کی تفصیلات سامنے آنے لگیں پاکستان میں ٹوئٹر صارفین کی جانب سے ان خدشات کا اظہار کیا جانے لگا ’کہیں یہ حملہ آرمی سکول حملے جیسا تو نہیں۔ ایک پاکستانی صحافی نے ٹویٹ کیا: ’ہمیں امید اور دعا کرنی چاہئے کہ یہ ایک اور اے پی ایس نہ ہو!‘ ایک صارف نے لکھا: ’محصوروں کے لئے دعائیں پھر سے کوئی اے پی ایس نہ ہو۔ ایک صحافی نے لکھا امید ہے یہ پھر سے 16 دسمبر نہ ہو۔‘ ایک صارف نے لکھا: ’خدشہ ہے یہ اے پی ایس سے زیادہ برا ہو گا۔ اس کے لئے کسے مورد الزام ٹھہرایا جائے؟‘ ایک ٹوئٹر ہینڈل سے لکھا گیا: ’کوئی بھی مذہب، کوئی بھی تنازعہ کسی مقدس مقام اور تعلیمی ادارے میں کسی کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ انتقام ہے۔‘ زیادہ تر ٹوئٹر صارفین کی جانب سے اس کی مذمت کی گئی۔ ایک صارف نے لکھا: ’تم لوگ جتنا ہمیں تعلیم کے حصول اور عدم تشدد سے روکو گے، ہم اس پر اتنی ہو توجہ مرکوز کریں گے۔