چارسدہ: باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کا حملہ‘ اسسٹنٹ پروفیسر‘ 18 طلبہ سمیت 20 افراد شہید‘ 11 زخمی
چارسدہ/ پشاور/ اسلام آباد/ لاہور (نامہ نگار+ بیورو رپورٹ+ خصوصی رپورٹر+ سپیشل رپورٹر+ نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں اسسٹنٹ پروفیسر، 18 طلبہ سمیت 20 افراد شہید اور 11 زخمی ہوگئے جبکہ پاک فوج کے کمانڈوز نے جوابی کارروائی کر کے 4دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا، زخمیوں کو چارسدہ اور پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا جہاں کئی کی حالت تشویشناک ہے۔ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملہ کی چھٹیاں منسوخ کرکے طلب کر لیا گیا۔ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں قومیت پرست رہنما باچا خان کی برسی کے موقع پر مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں شرکت کیلئے طلبا، اساتذہ اور مہمانوں کی بڑی تعداد موجود تھی صبح ساڑھے 9 بجے کے قریب دہشت گردوں نے یونیورسٹی میں داخل ہوکر اچانک فائرنگ شروع کردی جس سے خوف و ہراس پھیل گیا اور بھگدڑ مچ گئی، اس دوران دو دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ حملے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور پاک فوج کے کمانڈوز نے چارسدہ یونیورسٹی کا محاصرہ کر لیا اور جامعہ کے اندر فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ ذرائع کے مطابق حملہ آور عقبی راستے سے یونیورسٹی میں داخل ہوئے، حملے کے بعد یونیورسٹی میں موجود طلبہ شدید خوف و ہراس کا شکار رہے اور کئی طلبہ بھگدڑ کے نتیجے میں بھی زخمی ہوئے۔ بعدازاں فوج کی نگرانی میں سرچ آپریشن کیا گیا۔ شہر کو آنے والے تمام راستے بند کردیئے گئے۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق زخمیوں میں بیشتر طالب علم ہیں۔ یونیورسٹی کے گارڈز نے حملہ آورورں کو روکا اور ان سے مقابلہ کیا اور شور مچا کر لوگوں کو آگاہ کرنے کی کوشش کی جس کے بعد پھر حملہ آوروں نے ہاسٹل کی طرف حملہ کر دیا۔ آئی ایس پی آرکے مطابق ایک بلاک میں چھپ کرحملہ کرنے والے 2دہشت گردوں کو کمانڈوز نے ہلاک کیا جبکہ نشانہ بازوں نے چھت پر موجود مزید 2دہشت گردوں کو بھی بھون ڈالا۔ ڈی آئی جی سعید خان وزیر کا کہنا ہے کہ ہاسٹل میں محصور تمام طلبہ کو باہر نکال لیا گیا۔ پاک فضائیہ کی جانب سے یونیورسٹی کی فضائی نگرانی کی گئی۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر فضل رحیم کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں سکیورٹی انتظامات بہت بہتر ہیں۔ ان کے مطابق شہید ہونے والوں میں 4گارڈز اور ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں دو لڑکوں اور ایک لڑکیوں کا ہاسٹل ہے، یونیورسٹی میں 3ہزار سے زائد طلبہ و طالبات ہیں جبکہ مشاعرے کیلئے 600 مہمان بھی آئے ہوئے تھے۔ حملے کی اطلاع ملتے ہی طلبہ کے والدین کی بڑی تعداد جائے حادثہ پر پہنچ گئی ۔ ایک طالبعلم کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر ون سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اس لئے ممکن ہے کہ حملہ آور ہاسٹل نمبر ایک کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور فائرنگ کی، حملے میں یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حامد حسین بھی شہید ہوگئے۔ ایک طالبعلم نے بتایا کہ پولیس تقریباً 45 منٹ کے بعد جائے حادثہ پر پہنچی، انہوں نے کہا کہ حملہ صبح کے وقت ہاسٹل کی عمارت سے کیا گیا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک کمانڈر اور پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے ماسٹر مائنڈ عمر منصور نے نامعلوم مقام سے فون پر باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی جبکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مرکزی قیادت نے ایک ای میل کے ذریعے باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ ٹی ٹی پی ترجمان محمد خراسانی کے مطابق طالبان شوریٰ ٹی ٹی پی کا نام استعمال کرنیوالوں کیخلاف ایکشن لے گی۔ وزیراعظم نے آج ایک روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا ہے جبکہ سانحہ پر خیبر پی کے حکومت نے صوبے میں تین دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔ قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔ اے این پی نے بھی سانحہ پر 10 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ اے این پی کے تمام دفاتر میں 10 دن تک باچا خان یونیورسٹی کے شہداء کیلئے قران خوانی کی جائے گی۔ قومی وطن پارٹی کی طرف سے ایک ہفتے کیلئے سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ آرمی پبلک سکول پر حملے کے ماسٹر مائنڈ تحریک طالبان پاکستان (گیڈر گروپ) کے عمر منصور نرے نے اپنے فیس بک پر پیغام میں یونیورسٹی پر حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ چار حملہ آوروں کو بھیجا گیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گرد دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پچھلے راستے سے داخل ہوئے جس پر یونیورسٹی کی سکیورٹی اور انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کو یونیورسٹی خالی کرنے کا کہا گیا جس پر یونیورسٹی میں بھگدڑ مچ گئی۔ پہلے مرحلے میں دہشت گردوں اور سکیورٹی گارڈز میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ حملہ کرنے والے 2 دہشت گردوں کی عمریں 25 سے 30 سال کے درمیان تھیں جبکہ 2 کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے 20 افراد کے شہید ہونے اور 20 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔ چارسدہ سے بیورو آفس کے مطابق 3 گھنٹے آپریشن جاری رہا، فائرنگ سے پورا علاقہ لرز اٹھا۔ شہید ہونے والوں میں اسسٹنٹ پروفیسر حامد حسین اور اسسٹنٹ لائبریرین افتخار بھی شامل ہیں۔ چارسدہ میں کاروباری مرکز کو بھی احتجاجاً بند رکھا گیا۔ ڈی سی چارسدہ نے کہا ہے کہ آج تمام تعلیمی ادارے اور دفاتر کھلے رہیں گے۔ تاہم باچا خان یونیورسٹی میں تدریسی عمل نہیں ہو گا۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق حملے میں ملوث دہشت گردوں سے اہم دستاویزات برآمد ہوئیں، چار دہشت گرد غیر ملکی، کم عمر، پشتو بولنے والے تھے جنہوں نے حلئے طلباء کے بنا رکھے تھے۔ دہشت گردوں کے عقبی دیوار پھلانگنے سے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی گارڈز کی فائرنگ سے دہشت گردوں نے بوائز ہاسٹل کا رخ کیا۔ دہشت گرد ہاسٹل میں طلباء کو یرغمال بنانا چاہتے تھے اور ان کا اصل ہدف ایڈمنسٹریشن بلاک پر دھاوا بولنا تھا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں نے کھیتوں کے راستے سے آکر خاردار تاروں کو کاٹا، یونیورسٹی سے چھ دستی بم بھی بر آمد ہوئے تاہم کوئی خودکش جیکٹ نہیں ملی۔ دہشت گرد خود کش جیکٹ اور جدید اسلحہ سے لیس تھے ان سے بھاری مقدار میں کارتوس بھی برآمد ہوئے جبکہ ایک دوسرے عینی شاہد کا کہنا ہے کہ دہشت گرد تعداد میں چھ تھے۔ آئی ایس پی آر نے 18 طالب علموں اور 2 سٹاف کے ممبران کے شہید ہونے کی تصدیق کی اور بتایا کہ حملہ آوروں کو سیڑھیوں اور چھت میں مارا گیا۔ دہشت گرد جدید اسلحہ سے لیس تھے۔ بوائز ہاسٹل کے قریب دہشت گردوں کو روک لیا گیا۔ بعض ذرائع کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد 21 ہے۔ نادرا نے چارسدہ واقعہ میں ملوث دہشت گردوں کی فنگر پرنٹس کے ذریعے شناخت پر اپنی رپورٹ مکمل کر لی۔ ترجمان وزارت داخلہ کے مطابق رپورٹ وزیر داخلہ کو پیش کر دی گئی۔ دو دہشت گردوں کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 4 مشتبہ افراد کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا۔ آئی این پی کے مطابق حملہ آور دہشت گردوں کے گھروں کا حساس اداوں نے سراغ لگا لیا، معاملہ افغان حکومت کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ دہشت گردوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان طارق گیدڑ گروپ سے ہے۔ دہشت گرد گروپ کے ایک لیڈر عمر نرے نے افغانستان میں بیٹھ کر تمام حملے کی نگرانی کی۔ حساس اداروں نے دہشتگردوں کے مواصلاتی رابطوں کا ریکارڈ بھی حاصل کر لیا۔ دہشت گرد براہ راست افغانستان میں موجود عمر نرے سے ہدایت لیتے رہے۔ دہشت گرد حملے کا واقعہ افغان حکومت کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ حملے کے بعد بعض تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کا اعلان کیا گیا تاہم بعدازاں واپس لے لیا گیا۔ بعض ذرائع کے مطابق حملہ آوروں کے پاس خودکش جیکٹس بھی تھیں۔ تاہم وہ پھٹ نہیں سکیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد خون کا عطیہ دینے کیلئے ہسپتال پہنچ گئی۔ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے 2 دہشت گردوں کی شناخت ہو گئی۔ حملہ کرنے والے 2 دہشت گردوں کی شناخت عباس سواتی اور علی رحمان کے نام سے ہوئی۔ بی بی سی کے مطابق چار سدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان درہ آدم خیل نے تو قبول کر لی لیکن ان کی مرکزی قیادت نے لاتعلقی کا اعلان کردیا تو یہ آخر ماجرا کیا ہے۔ کیا درہ آدم خیل گروپ اب مرکزی تنظیم سے آزاد ہوچکا ہے؟ کیا یہ اعلان تحریک طالبان کی مرکزی قیادت سے اس گروپ کی ناراضی کا پتہ دیتا ہے؟ کالعدم تحریک طالبان پاکستان، درہ آدم خیل کے خلیف عمر منصور کون ہیں جنہوں نے ذمہ داری قبول کی ہے۔ پہلے پہل درہ آدم خیل کی جانب سے میڈیا سے رابطہ کر کے بتایا گیا کہ چار خودکش حملہ آوروں کو روانہ کیا گیا تھا، اس سے میڈیا نے یہ تاثر لیا کہ شاید یہ تحریک طالبان کی ہی کارروائی ہے لیکن چند گھنٹوں کے بعد تنظیم کے مرکزی ترجمان محمد خراسانی کی جانب سے وضاحت میڈیا کو موصول ہوئی کہ اس حملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں بلکہ جن لوگوں نے ان کی تنضیم کا نام استعمال کیا ہے اسکے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس کے تھوڑی دیر بعد خلیفہ عمر منصور نے بی بی سی اردو کو فون کر کے اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان درہ آدم خیل کی جانب سے قبول کرلی۔ انکا کہنا تھا کہ پشاور سکول حملہ فوجیوں کیلئے جبکہ یہ سیاسی قیادت کے لئے ایک پیغام ہے۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ تحریک طالبان نے تو اس کی تردید کر دی ہے تو انہوں نے کہا ’’اسے چھوڑیں آپ میرا بیان نشر کریں‘‘۔ رائٹر کے مطابق طالبعلموں کے سروں میں گولیاں ماری گئیں۔