’’آخر قوم کیوں برداشت کرے‘‘
چارسدہ باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ انکی ’’ کمر توڑنے ‘‘کے دعوئے’’ غلط‘‘ ہیں اور وہ پوری طاقت کے ساتھ اب بھی اپنی ’’کمین گاہوں ‘‘میں موجود ہیں اور وہ کسی بھی جگہ کو’’ آسانی‘‘ کے ساتھ ’’ نشانہ‘‘ بنا سکتے ہیں گزشتہ روز دہشتگردوں نے ایک بار پھر’’ درس گاہ‘‘ کو نشانہ بناکر ’’انسانیت دشمنی‘‘ کے بعد اب’’ علم دشمن‘‘ ہونے کا بھی ثبوت دیا ہے ، حملہ آوروں نے یونیورسٹی کے پروفیسر سمیت21 افرادکو شہید اور11سے زائد افرادکو زخمی کیا باچا خان یونیورسٹی میں معمول کیمطابق’’ تدریسی‘‘ عمل جاری تھا اور طلبا و طالبات حصول علم میں ’’ مصروف‘‘ تھے کہ صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ’’ قیامت ٹوٹی‘‘ اور دہشتگرد وں نے یونیورسٹی میں داخل ہوکر فائرنگ کردی ، حملہ آور یونیورسٹی کے ’’عقب‘‘ میں موجود ’’گنے‘‘ کے کھیتوں اور ’’دھند‘‘ کا سہارالیکر داخل ہوئے۔ پشاور سکول میں بھی دہشتگردوں نے’’عقبی دیوار‘‘ کو ہی استعمال کیا تھایونیورسٹی کی عقبی دیوار کیساتھ ملحقہ گنے کے کھیت ہیں جہاں’’پاؤں ‘‘کے نشانات واضح موجود ہیںدیوار کے ساتھ سے ’’ ربڑ‘‘کی ’’ چپل‘‘ بھی ملی ہیں جو ممکنہ طورپر حملہ آوروں نے ’’ پہن ‘‘رکھی تھیں۔ حملہ آوروں نے دیوارمیں سے’’اینٹیں‘‘ نکال کر اوپر ’’چڑھنے‘‘ کا بندوبست کیا جسکے بعد دیوارکے اوپر لگی ’’آہنی باڑ‘‘ کو ’’ کاٹ‘‘ کر دیوار پھلانگ گئے۔ دیوار سے پہلے ’’ رہائشی کالونی ‘‘ہے جسے ’’ عبور‘‘ کرکے وہ دیوار تک پہنچے حملہ آوروں کے خلاف آپریشن کے بعد ’’کلیئرنس‘‘ مکمل کرکے سیکیورٹی اداروں نے چار اے کے ’’4رائفلیں‘‘ اور’’چار دستی‘‘ بم بھی برآمد کیے۔ دہشتگرد اسلحہ لیکر کیسے اندر گھسے ؟یقینی طور پر حملہ آوروں کو کوئی اندر سے’’سپورٹ‘‘ حاصل تھی ۔چاہے وہ رہائشی کالونی کے اندر سے ہو یا پھر یونیورسٹی کے اند رسے ، حسب روایت ہماری’’پولیس‘‘ سیاستدانوں کی طرح ’’دیر‘‘ سے پہنچی باچا خان یونیورسٹی میںباچا خان کی ’’اٹھائیسویں برسی ‘‘کے موقع پر ’’ مشاعرے‘‘ کا انعقاد کیا گیا تھا اوراس میں شرکت کیلئے آنیوالے مہمان بھی یونیورسٹی میں موجود تھے۔ لیکن ’’ شکر ‘‘ہے کہ ابھی تک مشاعرہ شروع نہیں ہوا تھا ورنہ زیادہ نقصان ہوتا ،ہم نے پٹھان کوٹ واقعہ میں ہر قسم کا تعاون کرنے کا کہا تھا لیکن ہماری’’گرم جوشی‘‘ ہمیں خطرناک دشمن کے ’’حصار‘‘ سے باہر نہیں نکلنے دے رہی ہمیں کوئی درمیانی راستہ ’’ اپنانا‘‘ ہو گا پڑوسی ملک کے ماضی کو بھول کر آگے دیکھنے کی ’’ آرزو‘‘کا’’ بھاشن‘‘ ہمیں آئینہ دیکھنے پر مجبو ر کر رہا ہے ،ڈی جی آئی ایس پی آ ر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کے بقول سانحہ چارسدہ کے حوالے سے ’’کافی معلومات‘‘ اکٹھی کر لی ہیں۔ حملہ کرنیوالے دہشتگرد کون تھے کہاں سے آئے؟ کس نے بھیجے ؟کس نے حملہ کروایا ؟اس بارے میں کافی معلومات مل گئی ہیں، کم وقت میں بہت بریک تھرو ہو چکاہے لیکن اب ان تمام ’’معلومات ‘‘کی روشنی میں ہمیں آگے بڑھنا چاہیے دہشتگردوں کے قبضے سے دو موبائل فون ملے جن کا تجزیہ کیا گیا اور زیادہ تر موبائل کا ’’ ڈیٹا اکٹھا ‘‘کیا جا چکا ہے۔ دہشتگردوں کے پاس افغانستان کی ’’ سمیں‘‘ تھیں اور ایک دہشتگرد کے مرنے کے بعد بھی اسکے فون پر افغان سم سے ’’کالیں‘‘ آ رہی تھیں۔ دہشتگرد افغان صوبہ ننگرہار کے قریب سے فون پر رابطے میں تھے۔ اے پی ایس پشاور کے دہشتگردوں کو بھی افغان صوبے ننگرہار سے ’’کال ‘‘کی گئی تھی۔ سرحد پار بھارت کے ’’14قونصل خانے‘‘ ہیں اور حال ہی میں ہمیں بھارتی وزیر دفاع کی دھمکی کو ’’نظر انداز ‘‘نہیں کرنا چاہیے منوہرپاریکر نے کہا تھا کہ پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو پٹھانکوٹ ایئر بیس تک ’’رسائی‘‘ نہیں دی جائیگی۔ پاکستان نے پٹھان کوٹ ایئر بیس واقعے پر کارروائی نہ کی تو ایک سال میں اسکے ’’ نتائج ‘‘ساری دنیا دیکھے گی۔منوہرنے کہا تھا کہ یہ حملہ کب اور کیسے ہوگا، اس کا ’’تعین ‘‘ہم خود کرینگے۔ بڑے واضح الفاظ میں منوہر پاریکر نے پٹھانکوٹ واقعے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ جنہوں نے ہمیں نقصان پہنچایا انہیں بھی ’’ نقصان اٹھانا ‘‘ہوگا۔ حالانکہ بھارت کے ناکافی ثبوتوں کے باوجود وزیراعظم نواز شریف نے پٹھان کوٹ واقعے پر ایک اعلیٰ سطحی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی ، ایک روز قبل ہی پشاور کے نواحی علاقے کارخانو مارکیٹ میں خاصہ دار فورس کی چیک پوسٹ کے قریب خود کش دھماکے میں پولیٹیکل انتظامیہ کے افسر واہلکاروں سمیت 11 افراد جاں بحق، 36 زخمی ہوگئے، جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول لی تھی۔ سینئر طالبان کمانڈر نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ سرکاری حراست میں مرنے والے طالبان کا بدلہ ہے۔ کیا اسکے بعد بھی ہمیں خاموش ہو کر بیٹھنا چاہیے ، نیکٹا کہاں ہے ؟اس کو فعال کیوں نہیں کیا جارہا اس کا اجلاس کیوں منعقد نہیں کیا جا رہا ؟چاروں صوبوں کا آپس میں کوئی رابطہ ہی نہیں ،ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کو اب خاموش ہو کر نہیں بیٹھنا چاہیے ،اگر اب خاموشی اختیار کی گی تو پھر دشمن کو مزید کھل کر کھیلنے کا موقع ملے گا …ع ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘
ہم سعودی عرب اور ایران کے درمیان’’ صلح کیلئے کوششوں میں ہیں لیکن ہمارے اپنے گھرمیں ’’آگ‘‘ لگی ہوئی ہے اسے ’’ بجھانے‘‘ کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟کیا ہمارے بچوں کا خون ایسے ہی ’’بہتا‘‘ رہے گا وہ مولی گاجر کی طرح ایسے ہی ’’کٹتے ‘‘رہیں گے ؟؟عالم اسلام مسلسل’’بحران‘‘ میں ہے لیکن ’’نائن الیون‘‘ کے بعدبحرانوں کا سیلاب’’امنڈ‘‘ آیا ہے ،عراق افغانستان اور اب شام کی ’’ اینٹ سے اینٹ‘‘ بجائی جارہی ہے لیکن مسلم امہ کو ان بحرانو ں سے نکالنے کیلئے کو ئی’’ قیادت‘‘ نظر ہی نہیں آرہی۔ ایران سعودی ’’تنازع‘‘ کیا ہے کیا نہیں ہے یہاں اسکا تجزیہ کرنا ’’مقصود‘‘ نہیں کیونکہ اسکی اپنی اک پرانی تاریخ ہے،لیکن ہمیں ’’پرائی چھوڑ‘‘ کر اپنے گھر کو ٹھیک کرنا چاہیے ،پاکستان او آئی سی کو’’ متحر ک‘‘ کرے اور تمام مسلم ممالک کو ملا کر دہشتگردی کیخلاف ’’بہتر لائحہ عمل‘‘ تشکیل دے۔