مسلم امت اور پاکستان کا کردار
مسلم اُمہ کے درمیان بڑ ھتی کشیدگی خطے کیلئے اور پوری اسلامی دنیا کیلئے باعث تشویش ہے کیو نکہ ان تنازعات کے سنگین نتائج ہیں۔ فر یقین کے مابین عدم تعاون سے صرف اسلام دشمن عناصر کو تقویت حا صل ہو رہی ہے جن میں داعش سر فہرست ہیں۔ مشرق وسطی کی دو اہم طاقتیں ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑ ھتی ہوئی کشیدگی کے باعث شام اور یمن میں امن کے اقدامات متا ثر ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں اسرائیل کی بڑ ھتی ہوئی جارحیت فلسطین کے مسلمانوں کی حالت زار پہ منفی سائے ڈال رہی ہے۔ترکی اور روس کے درمیان تنازعہ اور سعودی عرب اور ایران کے مابین تازہ تر ین چپقلش ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک سو چا سمجھا منصوبہ ہے جو اسرائیل کے مسلمانوں کے خلاف خطرناک عزائم کی تکمیل کی خاطر آسا نی فراہم کر رہا ہے بحران کے خا تمے کیلئے بین الاقوامی قو توں کی جانب سے کوئی واضح حکمت عملی یا سنجیدہ کوشش دیکھنے میں نہیں آئی، حا لانکہ فعال اور مثبت سفار تکاری کے ذریعہ معاملات کے حل میں مدد ملتی ۔ صرف روس اور چین نے ثا لثی کی پیش کش کی جبکہ چینی صدر شی چن پنگ نے بذات خود سعودی اور ایرانی حکمرانوںسے ملا قات کی اور صبر اور تحمل کی درخواست کی۔
اس صورتحال میں ضروری تھا کہ پاکستان جو سعودی عرب اور ایران دونوں کا قریبی دوست ہے، اپنی خدمات پیش کرے۔ یہ خوش آئندامرہے کہ وزیراعظم نواز شریف مسلم دنیا میں اتحاد کی خاطر سعودی عرب اور ایران کے دارلحکومت تشریف لے گئے اور دونوں ممالک کے حکمرانوں سے ذاتی ملاقات کی۔ جغرافیائی، سیاسی، اقتصادی اور مذہبی حساسیت کے پیش نظر ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کو کم کرانے کی کوشش کر نا مسلم امہ کا فرض ہے۔ نہ کہ دونوں میں سے کسی فریق کا ساتھ دیکر معاملات کو طول دیا جائے۔ پاکستان اقوام متحدہ، اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اور مسلم اُمہ کا اہم رکن ہے لہذا فر قہ وارانہ ہم آہنگی ، استحکام اور علاقائی سالمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان نے اہم قدم اٹھا یا ہے۔ اپنی سفارتی کوششوں کو بروئے کار لا کر آکر پاکستان یہ احسن فر یضہ انجام دینے میں کا میاب ہو تا ہے تو اس سے بہتر کیا ہو گا۔
میاں نواز شر یف اپنے ہمراہ پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف، قو می سلامتی امور کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ اور اپنے مشیر برائے امور خارجہ طارق فاطمی کو بھی لے گئے۔ ریاض میں پاکستان اعلی سطحی وفددنے سعودی فرمانرواء سے ملاقات کی اور ایران کے ساتھ سعودی اختلافات کو پر امن طریقے سے حل کر نے کی درخواست کی۔ پاکستانی وفد نے اسلامی ممالک کی تنظیم کے ارکان کے درمیان بھائی چارے کو فروغ دینے اور تصادم کی پالیسی اپنا نے سے گریز کر نے کی درخواست کی۔ پاکستا نی وفدنے دونوں فر یقین کے درمیان مصالحت کر انے کی پیشکش کی اور یہ باور کرا یا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان طویل تصادم کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ یہ امید افزاء امر ہے کہ سعودی فر مانروا نے پاکستانی وفد کوا یران سے متعلق اپنے خد شات سے آگاہ کیا۔ سعودی تحفظات سننے کے بعد پاکستا نی اعلی سطحی ثا لثی وفد نے تہران کا رخ کیا جہاں ایرانی صدر روحا نی نے ان کا خیر مقدم کیا اور انکی سفارشات کا بغور معائنہ کر نے کا وعدہ کیا۔ ایرانی حکمران سعودی عرب سے امن کی خاطر مذاکرات کیلئے تیار ہیںاب سعودی جانب سے حا می بھر نے کی دیر ہے۔مبصروں کا تجز یہ ہے کہ پاکستان نے بروقت ثا لثی کی پیش کش کر کے تصادم کی راہ سے ہٹا کردونوں فر یقوں کو اپنے تحفظات اور خدشات کو دور کر نے میں مدد کر کے برد باری کا مظا ہر ہ کیا ہے۔ مشرق وسطی میں پہلے ہی داعش نے خون خرابے سے ہنگا مہ بپاکر رکھا ہے اور اب افغا نستان میں بھی قدم جمانے کی کوشش میںہے۔ داعش دا نستہ طور پر شیعہ فرقے کو ہدف بنایا ہے لیکن اب سعودی عرب ، ترکی ، افغا نستان اور حال ہی میں انڈونیشیا میں حملے کر اکے معصوم اور قیمتی جانوںکو نشانہ بنایا۔ گز شتہ برس کراچی میں اسما عیلی فر قے کی ایک بس پہ حملے کی ذمہ داری قبول کر کے داعش نے یہ باور کر انے کوشش کی تھی کہ وہ پاکستان میں قدم جمانے کا خواہاں ہے۔ وقت کی اشد ضرورت یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران مل کر داعش کا مقابلہ کریں لیکن آپس کے اختلافات اور رقا بت کا سب سے زیادہ فائدہ داعش کو ہی پہنچے گا۔یہاں دلچسپ اور خوش آئند امر چینی صدر شی چن پنگ کا دورئہ ریاض اور تہران ہے جس کا تذکرہ اوپر بھی آ چکا ہے۔ چین کے بھی سعودی عرب اور ایران کیساتھ گہرے روابط ہیں اور دونوں ملکوںمیں چین نے نہ صرف تر قیاتی منصو بے لگا ئے ہیں بلکہ دونوں سے تیل اور گیس کی فراہمی میں دلچسپی ہے لہذا چینی صدر کی امن برقراررکھنے کی خا طر ثالثی کی پیشکش اور کوشش کا خیر مقدم لازمی ہے۔ چین اور پاکستان دوستی اور بھائی چار ے کے گہرے بند ھن میں منسلک ہیں اور اگر دونوں ممالک مل کر سعودی عرب اور ایران کی آپس کی رنجشوں کو ختم کرانے کی سنجیدہ کوشش کر رہے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ اسکا نتیجہ خا طر خواہ ہو گا۔ایران اور سعودی تنازعات میں پاکستانی میڈیا کا کردار بھی اہم ہے۔ سعودی حکومت وہا بی ، سلفی، سُنی خیالات کی ترجمانی کرتی ہے جبکہ ایران میں شیعہ اکثریت میں بستے ہیں لہٰذا پاکستان میڈ یا میںبھی متضاد خیا لات پائے جاتے ہیں۔ کچھ اخبارنویس اور ٹی وی اینکر ایران کی طر فداری کر تے نظر آتے ہیں جبکہ کچھ سعودی عرب کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے میں پیمرانے عقلمندی کا اظہار کرتے ہوئے احکامات جاری کئے ہیں کہ پاکستانی میڈ یا کسی فریق کا ساتھ دینے اور دوسرے پہ نکتہ چینی کر نے سے گر یز کر ے بلکہ بردباری اور غیر جا نبداری سے خبریں اور تجز ئے پیش کر ے۔امید ہے کہ دونوں فر یقین میں تصادم کے بادل چھٹ جا ئیں گے اور اسلامی اُمہ متحد ہو جائے گی۔