میرے وطن تیرے دامان ِ تار تار کی خیر ہو
فیض صاحب نے نہ جانے کیا دیکھ کہ یہ کہا ہو گا مگر آج کل ہم لوگ جو دیکھ رہے ہیں بار بار دل سے یہی مصرع نکلتا ہے ۔ پاکستان کے سابقہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائیوں کے بارے میں ڈیفنس ہائوسنگ سو سائٹی کا سیکنڈل سن ، پڑھ کر حیرت نہیں ہو ئی ۔ بلکہ اس سیکنڈل زدہ صحافت اور سیاست نے پاکستانی عوام کو آج جس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ہر وقت سنائی دیا جانے والا ایک عام سا ، بے معنی جملہ ہم دن میں نہ جانے کتنی دفعہ دہراتے ہیںاور وہ یہ ہے کہ "پاکستان میں سب چور اور ڈاکو ہیں "ہمیں وجوہات بھول گئی ہیں مگر پاکستان کے سب گڈوں اور گڑیائوں میں یہ چابی بھر دی گئی ہے اور وہ دن رات ، ہر بحث کے شروع میں، درمیان میں اور آخر میں یہی بات کہتے رہتے ہیں ۔
یہ چابی کیسے بھری گئی ؟اس سوال کے جواب کیلئے بہت دور نہیں نکلتے،ہماری یاداشت بہت کمزور ہے ، ایک ادارہ NAB کے ساتھ ساتھ جرائم کو یاد رکھنے والی یاداشتوں کا بھی ہو نا چاہیئے ۔ اس کالم کو اس شعبے کا ایک نقطہ آغاز ہی جانیئے۔ کچھ سال پہلے کی بات لیتے ہیں ۔
مہران گیٹ سکینڈل ۔1990کے عام الیکشن کو خریدنے والا سیکنڈل ۔جس میں آپکی فوج کے سابقہ سربراہ اسلم بیگ ، آپ کی محترم سیکورٹی ایجنسی آئی ایس آئی کے چیف اسد درانی ، آئی جے آئی کی چھتری کے نیچے جمع پیپلز پارٹی کے تمام مخالفین جن میں آپکے موجودہ وزیر ِ اعظم اور پنجاب کے وزیر ِ اعلی بھی شامل ہیں۔ جس بنک کو استعمال کیا گیا اسکے مالک یونس حبیب ۔ مہران بنک جسے بعد میں نیشنل بنک میں ضم کر دیا گیا اور اسکے سارے خسارے نیشنل بنک کے لیجر میں منتقل کر دئے گئے ۔ اس زمانے کی خبریں نکال کر پڑھنے بیٹھی تو لگا جیسے ملک کو یونس حبیب کی گواہی کا ہی انتظار تھا ۔ اس 140ملین کی خر ید و فروخت میں یونس حبیب نے سب نام لے دیئے ۔ سیاست دانوں کے بھی ، لفافہ لینے والے صحافیوں کے بھی ، فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان کے بھی ۔ لوگوں نے سنسنی خیز خبریں سننے کیلئے اپنے آپ کو ٹی وی کے آگے منجمد کر لیا۔ وہ سوچ رہے تھے ان انکشافات کے بعد اب ملک کے حالات سدھر جائینگے ۔ انہوں نے اپنے دلوں کے اندر صحافیوں ، سیاست دانوں اور فوج کیلئے شک و شبے محسوس کئے ۔ انکے اعتبار کو ٹھیس لگی ۔ اور وہ اسکے بدلے ان کرداروں کے انجام کا انتظار کر نے لگے ۔ اصغر علی خان صاحب کی عدالت میں اس جرم کیخلاف درخواست کے نتیجے میں 1994میں ہی یو نس حبیب کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور دس سال کی سزا بھی سنا دی گئی تھی ۔ 2012 میں جب دووبارہ سنوائی ہو تی ہے تب وہ سب نام اگلتے ہیں ۔ بڑی تھرتھرلی مچتی ہے ۔ اورعام شہری سوچتے ہیں چلو دیر آید مگر درست آید ، اتنے سال تو گزر گئے مگر کچھ تو منظرِ ِ عام پر آیا ۔ پھر میمو گیٹ سیکنڈل کو یاد کرتے ہیں جس میں منصور اعجاز جیسا ایک مشکوک شخص ساری قوم کو الو بنانے میں کامیاب ہو تا ہے وہ ڈبل کراس کرنے والا کھلاڑی تھا یا پاکستان کا خیر خواہ اس کا فیصلہ کسی عدالت نے آج تک نہیں کیا ۔حسین حقانی جو تقریبا غدار قرار دئے جا چکے تھے ، اور عدالت نے عاصمہ جہانگیر کی ضمانت ( شخصی ہی ہو گی ) پر ملک سے جانے کی اجازت دی تھی ۔ نہ وہ حسین حقانی واپس پلٹے اور نہ محترمہ عاصمہ جہا نگیر کا کوئی بال بھی بیکا کر سکا ۔ وہ آج بھی دبنگ طریقے سے پاکستانی فوج کو پاکستانی چینل پر بیٹھ کر نجانے کون کون سی صلواتیں سناتی ہیں اور ایک حلقہ ہے جو ان کا ایسی باتوں کی وجہ سے مرید ہے ۔ تو حسین حقانی صاحب ، جو امریکہ جیسی سپر پاور میں پاکستان کے ایمبسیڈر رہ چکے ہیں کے خلاف بھی ہم نے افواہیں ، سیکنڈل اور شور تو میڈیا پر خوب جم کر سنا مگر ہوا کیا ؟ مگر ایک اور ادارہ لوگوں کے نزدیک ملعون ہو گیا ۔ پھر جمہوریت کا حسن اجاگر کر نیوالی اور اسے preserveکر نیوالی جماعت پیپلز پارٹی کے منتحب وزیر اعظم یو سف رضا گیلانی کو عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ہے ۔ انکے بیٹے موسی گیلانی کے خلاف ممنوعہ ادویات Ephedrineکا کیس خوب میڈیا کی اور سیاسی حلقوں کی زینت بنتا ہے ۔ لوگ ٹی وی کے آگے پھر جم کر بیٹھ جا تے ہیں ۔ جو لوگ آسان چارہ ہو تے ہیں ، مگر جو بااثر ہیں اور اصل مجرم ہیں ، وہ وہیں پر دنداناتے پھرتے ہیں ۔ اور سیکنڈل نکا لنے والے اور افواہیں پھیلانے والے ایک اور کر پشن کے کیس کو کسی منطقی انجام پر پہنچائے بغیر ،اپنا خفیہ مقصدپورا کرتے ہیں اور خاموش ہو جاتے ہیں ۔ لوگوں کا ایک دفعہ پھر سے یہ تاثر مضبوط ہو جاتا ہے کہ نہ سیاسی لیڈر اچھے اور نہ ہی بیور و کریسی ۔
ایان علی : ایک ادکارہ ،منی لانڈرنگ میں اسے پکڑ لیا جاتا ہے ۔ فنکاروں کیساتھ منسلک ایک نازکی اور حساسیت کا خاتمہ تو ہو تا ہی ہے مگر اسکے ساتھ جڑے ناموں سے پھر سے باثر لوگوں کے کالے چہرے عوام کو نظر آتے ہیں ۔
الطاف حسین، مڈل کلاس کی نمائندگی کرنے اور مہاجروں کی آواز بننے والے پر بھی اغوا برائے تاوان ، بھتہ ، قتل اور منی لانڈرنگ جیسے سب الزامات تقریبا ثابت ہیں ، مگر ہوا کیا ؟ ڈاکٹر عاصم جیل میں ہے اور سب کے نام لے رہا ہے تو کیا ہے ؟ ، ایک سندھ اسمبلی میں بل پاس کر کے سب اس پر تصفیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ مولویوںکے نام بھی ڈھکے چھپے نہیں ۔ مولونا عبد العزیز برقعہ پہن کر مفرور ہو تے پکڑا گیا تو لوگوں کا خیال تھا کہ کسی بھی عدالتی سزا سے پہلے ہی یہ تو شرم سے مر جائیگا ، ۔ مگر دنیا حیران ہو ئی جب اسے نہ کوئی سزا ملی اور نہ ہی وہ خود شرم سے مرا ۔ایک اور سابقہ فوجی سربراہ جنرل مشرف کو غدار کہہ کر قید میں رکھا گیا ۔ لوگوں کو اسکے کچھ اچھے کام یاد نہیں بس یہ یاد رہ گیا کہ وہ غدار تھا اور اب جنر ل کیانی کے بھائی ،اس سے پہلے جسٹس افتخار کے بیٹے ارسلان افتخار۔ان سب میں کچھ کی قسمت صرف الزامات تک ہی محدود رہی:
"چھوٹی چوری چوری ہے مگر بڑی چوری ایک آرٹ ہے ،اس لئے اب سب آرٹسٹ بننے کیلئے طریقے ڈھونڈتے ہیں ۔ "ایسے میں وطن کی خیر ہو …