سیاسی مفادات کیلئے میرٹ کی قربانی سے ریاست تیاہ ہوجاتی ہے
اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے آئل اینڈ گیس کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) میں بھرتیوں کے کیس میں سابق وفاقی وزیر پٹرولیم انور سیف اللہ کی بریت کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے حکومت کی اپیل منظور کرلی ہے اور چیئرمین نیب کو عدالتی حکم کی کاپیاں تمام وفاقی اور صوبائی وزراء اور سیکرٹریوں تک پہنچانے کاحکم دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جہاں میرٹ کو سیاسی مفادات کیلئے قربان کر دیا جائے وہاں ریاستی ڈھانچہ کمزور اور اس ناانصافی سے ریاست تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ قومی احتساب بیورو اور ملک کی عدالتیں ایک مضبوط ٗ منصفانہ اور مہذب معاشرے کے قیام کیلئے کر دار ادا کرے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اقبال حمید الرحمن اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل بینچ نے 65صفحات پر مشتمل فیصلہ میں دو ججوں نے حکومت کی اپیل منظور کرلی جبکہ جسٹس عمر عطاء بندیال نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے ان اپیلوں کو مسترد کر نے کے حق میں رائے دی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی طرف سے لکھے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ انور سیف اللہ خان نے وفاقی وزیر کی حیثیت سے سرکاری ادارے کے چیئرمین کے طورپر اختیارات کا غلط استعمال کیا اور 145افراد کو کارپوریشن کی ضروریات کی بنیاد پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں سیاسی دوستوں کو خوش کر نے کیلئے بھرتی کیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یہ کام جاری روایات کے مطابق کیا گیا ہے اور مدعا علیہ نے کوئی مجرمانہ فعل نہیں کیا تاہم سپریم کورٹ ہائی کورٹ کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتی۔ اس قسم کی روایت کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ فیصلے میں کہاگیا کہ مدعا علیہ نے قانون اور مختلف عدالتوں کی طرف سے قبل ازیں جاری ہونے والے فیصلوں سے انحراف کیا اور ادارے کے مفادات کے خلاف اپنی حیثیت اور اختیارات کو استعمال کیا اس نے بلا جواز حمایت کی۔ احتساب عدالت لاہور کی طر ف سے 30نومبر 2000 کو جاری کیا گیا فیصلہ اور اس میں دی گئی سزا کو بحال کیا جاتا ہے تاہم فوجداری کیس میں سزا ختم کی جاتی ہے کیونکہ یہ بیس سال پرانی سزا ہے مدعا علیہ پہلے ہی عمر قید کے برابر سزا بھگت چکا ہے اسی طرح نیب آرڈیننس کے سیکشن پندرہ کے تحت اس کی نا اہلی کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے۔ ملزم سے جرمانہ بھی وصول نہیں کیا جاسکتا اور نہ اسے عدم ادائیگی پر جیل بھیجا جاسکتا ہے ان معنی میں اپیل مسترد کی جاتی ہے۔ قانون سازوں کو سرکاری ملازمین پر سیاسی مفادات کیلئے دبائو ڈالنے سے گریز کر ناچاہیے جبکہ بیورو کریسی پہلے ہی یہ احکامات ماننے کیلئے تیار ہوتی ہے ایک مہلک اتحاد بنایا جاسکے اور اس ناپاک اتحاد کے ذریعے میرٹ کو تباہ ٗ ریاستی ڈھانچے کو کمزور اور معاشرے میں نا انصافی کو فروغ دیا جاتا ہے جو معاشرہ میرٹ کو سیاسی مفادات کیلئے قربان کر دے وہ تباہ ہو جاتا ہے ۔