سپیکر قومی اسمبلی نے بیوروکریسی کونیکل ڈال دی
بالاخر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ’’کسٹوڈین‘‘ نے اپنے اختیارات کا استعمال شروع کر دیا ہے سردار ایاز صادق نے وزارت ہائوسنگ کے سیکرٹری کو پورے ایوان کے سامنے کھڑا کرکے تابرخواست قومی اسمبلی کے اجلاس بیٹھنے کی سزا دے کر پوری بیوروکریسی کے کان کھڑے کر دئیے ہیں۔ دوسری طرف میاں رضا ربانی نے ’’غیر حاضری‘‘ پر وزیردفاع خواجہ آصف پر پورے سیشن میں داخلے پر پابندی عائد کر دی، سپیکر قومی اسمبلی نے وفاقی سیکرٹری ہاؤسنگ و تعمیرات شاہ رخ ارباب کی آفیشل گیلری سے غیر حاضری کا سخت نوٹس لے لیا، جب سپیکر کی طلبی پر سیکریٹری ہائوسنگ قدم رنجاں ہوئے تو سپیکر نے پورے ایوان کے سامنے ان کی وہ عزت افزائی کہ ان کا چہرہ لٹک گیا ۔ بالآخر حکومت نے اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باوجود اپنی اکثریت کے بل بوتے پر کالے دھن کو سفید کرنے کے ٹیکس ایمنسٹی بل اور پی آئی اے کو کارپوریشن سے کمپنی میں تبدیل کرنے کے بل منظور کرا لئے اس طرح چار دیگر بل بھی قومی اسمبلی سے منظور کرا لئے گئے، متنازعہ بل منظور کراتے وقت ایوان میں جملے بازی اور ہنگامہ آرائی ہوتی رہی، اپوزیشن نے دونوں بلوں کی شدید مخالفت کی‘ متحدہ اپو زیشن جس میں پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان تحریک انصاف،ایم کیوایم، جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں نے دونوں بلوں کی کاپیاں پھاڑ کر ایوان میں لہرا دیں اور بطور احتجاج ایوان سے واک آئوٹ کر دیا، ایمنسٹی ٹیکس سکیم بل 2016اور پی آئی اے کارپوریشن بل 2016 ٹیکس ایمنسٹی بل کی منظوری سے قبل پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے فیصل آباد سے مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی میاں عبدالمنان کا نام لیا تو وہ اپنی نشست پر کھڑے ہو گئے اور احتجاج شروع کردیا، اپوزیشن ارکان ’’کالا دھن نا منظور‘‘’’ کرپشن سے وفاداری نا منظور‘‘ کے نعرے لگاتے رہے، شاہ محمود قریشی نے ڈپٹی سپیکر پر جانبداری کا الزام لگایا تو انہوں اس پر قدرے سخت رویہ اختیار کر لیا، قومی ساسمبلی کے اجلاس میں حمزہ شہباز شریف آئے تو ایوان میں حکومتی ارکان کی توجہ کا مرکز بنے رہے اور درخواستی گروپ کے گھیرے میں رہے جبکہ کئی ارکان حمزہ شہباز شریف کے ساتھ سیلفیاں بھی بناتے رہے۔ ایوان میں وزیراعظم کے اٹک قلعہ کی جیل یاترا پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور وزیر مملکت برائے شیخ آفتاب احمد کے درمیان جملے بازی ہوئی شیخ آفتاب جو میاں نواز شریف کی جیل یاترا کی وجہ سے میزبانی کے فرائض انجام دیتے رہے نے زور دار انداز میں میاں نواز شریف سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’میں خودروزانہ 6،6 گھنٹے اٹک قلعہ میںمیاں نوازشریف کے ساتھ گزارتا تھا۔ انہوں نے ایک سال اس کال کوٹھڑی میں گزارے ہمیشہ قوم کی بات کی اور کسی موقع پر بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ نوازشریف نے کبھی بھی اٹک قلعہ میں آنسونہیں بہائے تھے، ان کے کبھی آنسو نہیں گرے، جرأت سے حالات کا مقابلہ کیا، نوازشریف نے کبھی اٹک قلعہ میں مچھروں کی شکایات نہیں کیں، نوازشریف جیسا بہادر شخص نہیں دیکھا۔ جس کے بعد سید خورشید شاہ نے کہا کہ ’’میں نے نوازشریف پر تنقید نہیں کی تھی بلکہ کہا تھا کہ نوازشریف نے قوم کے لیے آنسو بہائے یہ غلط سمجھے ہیں نوازشریف کو جہاز میں کھڑا کرکے لے جایا گیا تھا اثاثے بھی چلے گئے تھے، میں سیاستدانوں کی قربانیوں کا ذکر کررہا ہوں۔‘‘پیپلزپارٹی کے نوید قمر نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اچانک ایوان میں بل پیش کرنا اور اراکین کو بل کو پڑھنے کا بھی موقع نہ دینا پارلیمنٹ کی روایات کے خلاف ہے،شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت کو بل پاس کرنے میں کیا جلدی ہے، اگر یہاں پاس بھی ہوگیا تو سینیٹ میں منظور نہیں ہوگا۔ ایمنسٹی بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ9 واں ایمنسٹی بل ہے ‘ اس سے پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہوا ہے ، ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ اس وقت حزب اختلاف کی تقریروں کو کون سن رہا ہے اور اس وقت وزیر خزانہ کہاں ہیں، ان کیلئے سوئٹزر لینڈجانا اہم ہے۔ یہی حال وزیراعظم کا ہے اور فاصلہ کم ہے وزیراعظم ہائوس اور پارلیمان کا مگر وزیراعظم بیرونی دوروں پر موجود ہیں، آج اس ایوان میں وزیراعظم، وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ کیوں نہیں آئے، ہم نے اس اہم مسئلے پر 3گھنٹے بھی گفتگو نہیں کی ،جمعرات کو قومی اسمبلی کا ایوان بھی بجلی کی لوڈشیدنگ کی زد میں آگیا، اجلاس کی کارروائی کے دورا ن ہی اچانک ایوان میں اندھیرے میں ڈوب گیا جس پر ایوان میں اپوزیشن نے شور مچایا اور ہنگامہ آرائی کی جس پر وضاحت کرتے ہوئے وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ محمد آصف نے کہا کہ گدو پاور پلانٹ کے ٹرانسفارمر میںآگ لگنے سے بجلی کا بریک ڈائون ہوا، جسکی وجہ سے اسلام آباد، لاہور، فیصل آباداور گوجرانوالہ کے گرڈ اسٹیشن ٹرپ ہوئے ۔
پارلیمنٹ کی ڈائری