حالیہ دہشت گردی، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی حکمت عملی سوالیہ نشان بن گئی
لاہور (اشرف جاوید / نیشن رپورٹ) دہشت گردی کی حالیہ لہر نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی حکمت عملی کے حوالے سے سوالات پیدا کردئیے ہیں۔ اس سال کے آغاز سے ملک میں دہشت گرد آزادانہ حملے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے سکیورٹی فورسز، طلبہ اور عام شہریوں کو بم حملوں اور فائرنگ سے نشانہ بنایا، حالیہ حملوں میں 60 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخی ہوچکے ہیں۔ ’’دی نیشن‘‘ سے بات چیت میں سرکاری عہدیداروں، سکیورٹی ماہرین نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ کئی سال تک بھی جاری رہ سکتی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان نے حکومت کو شارٹ ٹرم اہداف حاصل کرنے میں مدد دی تاہم طویل عرصہ کے اہداف کے حصول کیلئے مزید اقدامات کرنا ہونگے۔ ایک سکیورٹی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ افغانستان مشرق وسطیٰ اور افریقہ سمیت دنیا بھر میں کیا ہو رہا ہے۔ کئی ممالک دہشت گردی کیخلاف لڑ رہے ہیں۔ دہشت گرد گروپ آپس میں رابطوں میں بھی ہیں لہٰذا عسکریت پسندی سے نمٹنے کیلئے ملکوں کو بھی آپس میں تعاون بڑھانا ہوگا۔ ایک سکیورٹی عہدیدار نے کہا ہمیں سمجھنا چاہئے کہ قومی سلامتی پلان کی وجہ سے ساری قوم آج دہشت گردی کیخلاف متحد ہے۔ لوگ اس لعنت سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ ہزاروں مشتبہ افراد کی گرفتاری کے باوجود ملک بھر میں تعلیمی ادارے حملے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ہزاروں افغان شہری اب بھی غیر قانونی طور پر پاکستان میں موجود ہیں اورحکومت ان مہاجرین کی مکمل رجسٹریشن کرنے میں ناکام رہی ہے۔