’’دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے‘‘
دل مضطرب تھا۔ ملکی حالات پر چیختی، دھاڑیں مارتی، کچوکے لگاتی خبریں وطنِ عزیز کو کسی کی نظر لگنے کی چغلی کھا رہی تھیں، بوجھل دل کے ساتھ سوچ رہا تھا کہ باچا خان یونیورسٹی کے سانحہ کا جائزہ لوں یا بجلی کے آئے روز کے بریک ڈائون پر قلم اٹھائوں مگر اخبار کھنگالنے کے عمل میں نظر ایک چھوٹی سی خبر پر آ کر اٹک گئی۔ بظاہر یہ سنگل کالم روٹین کی خبر تھی مگر اسے پڑھ کر دل پر آریاں چلنے لگیں، یادوں کے دریچے وا ہونے لگے اور اپنے بزرگ، دیدہ ور، دانش ور، شاعر اور قد آور سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خاں کی زبان سے اکثر سُنے جانے والے یہ اشعار گڈمڈاتی فضا پر حاوی ہو گئے…؎
رسن و دار اِدھر، کاکل و رُخسار اُدھر
دل بتا تیرا کدھر جانے کو جی چاہے ہے
درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے، زندہ رہئے
زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے
جی، یہ خبر انہی بزرگ مرنجاں مرنج سیاستدان بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خاں کے لاہور کے برس ہا برس آباد رہنے والے سیاسی ڈیرے -32 نکلسن روڈ کی مسماری سے متعلق تھی۔ خبر کے مطابق لاہور میں جاری ٹرین اورنج لائین منصوبے نے نوابزادہ صاحب کے اس قدیمی ڈیرے کو جو درحقیقت ان کے آخری سانس تک لاہور میں ان کی اقامت گاہ بنی رہی، مٹی کے ڈھیر میں بدل دیا ہے اور اب اس جگہ پر بلڈنگ نام کی کوئی چیز موجود نہیں رہی، گویا اس ڈیرے سے وابستہ ہر یاد اور ہر یادگار معرکہ بھی مٹی بن کر اس بلڈنگ کے ساتھ ہی مسمار ہو گیا ہے۔ نوابزادہ صاحب کی وفات کے بعد ان کی تانگے کی سواری والی ضرب المثل بنی جمہوری پارٹی کو ان کے فرزندِ ’’سعادت مند‘‘ نوابزادہ منصور احمد خاں نے پہلے ہی مسمار کر کے مٹی کے ڈھیر میں بدل دیا تھا جس کے اندر سے جمہوری پارٹی کی نئی عمارت کھڑی کرنے کے لئے نوابزادہ صاحب کے دستِ راست چوہدری محمد ارشد کی انگڑائی بھی کارگر نہ ہو سکی اور اپوزیشن تحریکوں اور اتحادوں کو جلا بخشنے والی یہ جمہوری پارٹی نوابزادہ صاحب کی یادوں کے تذکرے کے ساتھ ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ کی تصویر بن گئی۔ نوابزادہ صاحب کے جس خاندانی اور سیاسی وارث سے ان کی پارٹی نہ سنبھالی جا سکی وہ ان کی یادوں کو زندہ اور تازہ رکھنے کے لئے ان کے سیاسی ڈیرے کو بچانے کا بھی کیا تردد کر سکتے تھے۔ نوابزادہ صاحب نے ایک ہال اور دو کمروں پر مشتمل -32 نکلسن روڈ کے اس ڈیرے کو 60ء کی دہائی میں کرائے پر لے کر آباد کیا تھا اور پھر یہ ڈیرہ ہر سول اور جرنیلی آمر کے خلاف مزاحمت کی تحریکوں کا مرکز بن گیا اور سیاسی اقدار کی درس و تدریس کے لئے یونیورسٹی کا مقام حاصل کر گیا۔
نوابزادہ صاحب کے ساتھ میری نیاز مندی کا سلسلہ 80ء کی دہائی میں ایم آر ڈی کی تحریکِ بحالیٔ جمہوریت کے دوران استوار ہوا اور ادب آداب والی یہ نیاز مندی ان کی زندگی کے آخری سانس تک برقرار رہی۔ -32 نکلسن روڈ پر نوابزادہ صاحب سے میری آخری ملاقات ان کی لندن روانگی سے ایک روز قبل ہوئی جب انہوں نے اپنے قریبی احباب کے لئے شوق و اشتیاق کے ساتھ مینگو پارٹی کا اہتمام کیا۔ ان کا محدود سا کمرہ چند دوستوں کی موجودگی میں بھر گیا جن میں زیادہ تر نوابزادہ صاحب کے کالم نگار دوست شامل تھے اور اپنے دوست و احباب کے ساتھ اپنائیت و محبت کا یہ انداز ہمیشہ دل میں محفوظ رہے گا کہ وہ خود فون کر کے اور پھر تاکیدِ مزید کر کے انہیں اپنی مخصوص نشستوں میں مدعو کیا کرتے تھے، میرا تو کم و بیش روزانہ ان کے ڈیرے پر حاضری کا معمول تھا پھر بھی وہ اپنی مخصوص نشستوں میں خود مدعو کرنے کا فریضہ ادا کر لیا کرتے تھے۔ مینگو پارٹی میں بھی انہوں نے خود مدعو کرنے کی زحمت اٹھائی۔ عبدالقادر حسن‘ چودھری خادم حسین‘ سید انور قدوائی اور چند دوسرے دانشور احباب کو وہ خود آم کاٹ کاٹ کر ان کی قانچیں پیش کرتے رہے اور یہ کہہ کر کھانے پر اصرار کرتے رہے کہ یہ بہت میٹھے ہیں۔ ہمیں تو ان کی زبان کی مٹھاس کا چسکا لگا ہوا تھا جو اکثر اوقات کسی نہ کسی ایشو پر بیان ریکارڈ کراتے ہوئے ان کی ٹیلی فونک گفتگو کے دوران بھی سنائی دے جاتی تھی۔ اس دن نوابزادہ صاحب نے دل کھول کر باتیں کیں وہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے مابین پیدا ہونے والی بعض غلط فہمیاں دور کرانے کے لئے لندن کو عازم سفر ہو رہے تھے جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے تئیں اختیار کی گئی دوسری جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہی تھیں، انہی سے ملاقات مقصود تھی۔ سو وہ اگلے روز اپنے یادگار حقے اور رومی ٹوپی کے ساتھ لندن روانہ ہو گئے۔ ہمارے دوست منیر احمد خاں بھی ان کے شریک سفر تھے۔ سنا ہے لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقاتوں کے دوران کچھ تلخ معاملات بھی ہو گئے‘ نوابزادہ صاحب ’’پیس میکر‘‘ کے سہارے اپنے دل کو سنبھالے ہوئے تھے اور ان کے معالج ڈاکٹر ترین نے پورے اعتماد کے ساتھ یہ اعلان کر رکھا تھا کہ اس پیس میکر کے سہارے اگلے دس برس تک وہ خوش و خرم زندگی بسر کر لیں گے مگر محترمہ بے نظیر بھٹو کے لہجے کی تلخیوں نے ان کے پیس میکر کے ساتھ ان کے دل کی ثابت قدمی برقرار نہ رہنے دی اور وہ وہیں پر انتہائی علیل ہو گئے‘ بے سدھ حالت میں ملک واپس لوٹے اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی چنانچہ مینگو پارٹی والی نشست ہی ان کے ساتھ آخری نشست بن گئی اور ان کی رحلت کے ساتھ ہی ان کا سارا سیاسی ورثہ بھی تتر بتر ہو گیا۔ نوابزدہ منصور نے 32 نکلسن روڈ کو آباد رکھنے میں کوئی دلچسپی لی نہ وہ ان کی سیاسی میراث کو سنبھالنے کے اہل ہو سکے۔ چنانچہ سالہا سال تک نوابزادہ صاحب کے دم قدم سے آباد ان کا ڈیرہ پلک جھپکتے میں ویران ہو گیا۔ نوابزادہ صاحب کی صرف پہلی برسی اس ڈیرے پر ہوئی اس کے بعد ان کی برسی کی تقریبات کہاں منائی گئیں، آج تک کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو سکی۔
نوابزادہ صاحب کی سیاسی سوچ‘ اپروچ اور فلسفے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر احترام آدمیت اور شرف انسانیت کے تقاضے نبھانے میں وہ یکتا تھے۔ زبان و بیان میں بھی حفظِ مراتب کا خیال رکھتے اور تُوتکار سے گریز کرتے اور تکبر کا شائبہ بھی ان کے سراپے پر نہیں گزرتا تھا۔ مجھے ہمیشہ ان کی بزرگانہ شفقت حاصل رہی۔ ایک بار برادرم سہیل وڑائچ کی اقامت گاہ پر ان کی افطار پارٹی میں اعتزاز احسن کی موجودگی میں مشاعرہ کا ماحول بن گیا چنانچہ نوابزادہ صاحب نے مجھ سے بالاصرار میری پنجابی غزل بار بار سُنی اور اس کے مقطع پر تو ان کی نظر ہی جم گئی…؎
جی کردا اے ہُن تے سُتّے سَوں جائیے
آسی یارا جاگن نوں ہُن جی نہیں کردا
آہ! نوابزادہ صاحب کیا مجلسی شخصیت تھے۔ صحافی برادری کے ایک ایشو پر میں نے بطور صدر پی ایف یو جے (دستور) لاہور پریس کلب میں احتجاجی کیمپ لگایا۔ نوابزادہ صاحب کو اس کی خبر ملی تو پوری اے آر ڈی کو ساتھ لے کر کیمپ میں آ پہنچے اور میرے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے۔ کچھ فوٹو گرافروں نے بہتر تصویر کے لئے انہیں کسی دوسری جگہ پر بٹھانا چاہا تو انہوں نے داغ کا یہ مصرعہ دُہراتے ہوئے وہاں سے اُٹھنے سے معذرت کر لی کہ ’’حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے‘ بیٹھ گئے۔‘‘
آج میٹرو ٹرین کا منصوبہ ویسے ہی تنقید کی زد میں ہے کہ چوبرجی سمیت لاہور کے کئی تاریخی مقامات اس کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ سول سوسائٹی کے کچھ لوگ اس پر سراپا احتجاج بھی بنے ہوئے ہیں مگر نوابزادہ صاحب کے سیاسی ڈیرے 32 نکلسن روڈ کی مسماری کی خبر نے تو میرے ذہن کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اگرچہ یہ سیاسی ڈیرہ پہلے ہی اُجڑ گیا تھا اور اس کے اصل مالک نے اسے پرانے جوتوں کی بدبُو چھوڑتی دکان میں تبدیل کر دیا تھا مگر شریف صاحبان کو نوابزادہ صاحب کے ساتھ اپنے تعلق خاطر کی ہی کچھ پاسداری کرنی چاہئے تھی جنہوں نے آئی جے آئی سے اے آر ڈی تک ان کے ناز نخرے اُٹھائے اور اقتدار و اپوزیشن کی سیاست میں ان کی قیادت کے راستے ہموار کئے۔ اس وطن عزیز کی فضاؤں پر پہلے ہی قنوطیت کا راج ہے۔ نوابزادہ صاحب کے سیاسی ڈیرے کی مسماری نے تو رونے کا مقام بھی بنا دیا ہے اور…؎
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
نوابزادہ صاحب کی یاد آتے ہی بے مہریٔ زمانہ کے باب کی ساری پرتیں کھل گئیں آہ…؎
سارے بیٹھے کچیائی پئے ٹالدے نیں
محفل دے وچہ بولن نوں ہن جی نہیں کردا